





ایک اور مقام پر فرمایا:

تمام تعریف اس اللہ کے لئےہے کہ جو خلق (کائنات سے) اپنے وجود کا ۔۔۔پتہ دینے والاہے۔(خطبہ150)
امیر المؤمنینؑ نے چیونٹی کے وجود کو سامنے رکھ کر توحید کی عظمتوں کو بیان فرمایا اور اسے بھی واضح کیا کہ اسے مخلوق کی خلقت میں کسی مدد گار کی ضرورت نہیں:






چمگادڑ کو سامنے رکھ کر اللہ سبحانہ کی کارسازیوں کو یوں بیان فرمایا:



ابْتَدَعَهُمْ خَلْقاً عَجِيباً مِنْ حَيَوَانٍ وَ مَوَاتٍ وَ سَاكِنٍ وَ ذِي حَرَكَاتٍ وَ أَقَامَ مِنْ شَوَاهِدِ الْبَيِّنَاتِ عَلَى لَطِيفِ صَنْعَتِهِ وَ عَظِيمِ قُدْرَتِهِ مَا انْقَادَتْ لَهُ الْعُقُولُ مُعْتَرِفَةً بِهِ وَ مَسَلِّمَةً لَهُ وَ نَعَقَتْ فِي أَسْمَاعِنَا دَلَائِلُهُ عَلَى وَحْدَانِيَّتِهِ وَ مَا ذَرَأَ مِنْ مُخْتَلِفِ صُوَرِ الْأَطْيَارِ الَّتِي أَسْكَنَهَا أَخَادِيدَ الْأَرْضِ وَ خُرُوقَ فِجَاجِهَا وَ رَوَاسِيَ أَعْلَامِهَا مِنْ ذَاتِ أَجْنِحَةٍ مُخْتَلِفَةٍ وَ هَيْئَاتٍ مُتَبَايِنَةٍ مُصَرَّفَةٍ فِي زِمَامِ التَّسْخِيرِ وَ مُرَفْرِفَةٍ بِأَجْنِحَتِهَا فِي مَخَارِقِ الْجَوِّ الْمُنْفَسِحِ وَ الْفَضَاءِ الْمُنْفَرِجِ كَوَّنَهَا بَعْدَ إِذْ لَمْ تَكُنْ فِي عَجَائِبِ صُوَرٍ ظَاهِرَةٍ وَ رَكَّبَهَا فِي حِقَاقِ مَفَاصِلَ مُحْتَجِبَةٍ وَ مَنَعَ بَعْضَهَا بِعَبَالَةِ خَلْقِهِ أَنْ يَسْمُوَ فِي الْهَوَاءِ خُفُوفاً وَ جَعَلَهُ يَدِفُّ دَفِيفاً وَ نَسَقَهَا عَلَى اخْتِلَافِهَا فِي الْأَصَابِيغِ بِلَطِيفِ قُدْرَتِهِ وَ دَقِيقِ صَنْعَتِهِ فَمِنْهَا مَغْمُوسٌ فِي قَالَبِ لَوْنٍ لَا يَشُوبُهُ غَيْرُ لَوْنِ مَا غُمِسَ فِيهِ وَ مِنْهَا مَغْمُوسٌ فِي لَوْنِ صِبْغٍ قَدْ طُوِّقَ بِخِلَافِ مَا صُبِغَ بِهِ وَ مِنْ أَعْجَبِهَا خَلْقاً الطَّاوُسُ ۔ ۔





ہم تیری عظمت و بزرگی کی حقیقت کو نہیں جانتے مگر اتنا کہ تو زندہ و کار ساز (عالم) ہے، نہ تجھے غنودگی ہوتی ہے اور نہ نیند آتی ہے ،نہ تار نظر تجھ تک پہنچ سکتا ہے اور نہ نگاہیں تجھے دیکھ سکتی ہیں۔ تو نے نظروں کو پالیاہے اور عمروں کا احاطہ کرلیاہے اور پیشانی کے بالوں کو پیروں (سے ملاکر) گرفت میں لے لیا ہے ۔ (خطبہ158)

امیر المؤمنینؑ نے عقیدۂ توحید کی مضبوطی اورمعرفت کے لئے اللہ سبحانہ کے علم کا مختلف طریقوں سے ذکر کیا ہے۔ اپنے علم کے بارے فرمایا:



لَا يَشْغَلُهُ شَأْنٌ وَ لَا يُغَيِّرُهُ زَمَانٌ وَ لَا يَحْوِيهِ مَكَانٌ وَ لَا يَصِفُهُ لِسَانٌ لَا يَعْزُبُ عَنْهُ عَدَدُ قَطْرِ الْمَاءِ وَ لَا نُجُومِ السَّمَاءِ وَ لَا سَوَافِي الرِّيحِ فِي الْهَوَاءِ وَ لَا دَبِيبُ النَّمْلِ عَلَى الصَّفَا وَ لَا مَقِيلُ الذَّرِّ فِي اللَّيْلَةِ الظَّلْمَاءِ يَعْلَمُ مَسَاقِطَ الْأَوْرَاقِ وَ خَفِيَّ طَرْفِ الْأَحْدَاقِ۔۔
خدا وند عالم کو ایک حالت دوسری حالت سے سدّراہ نہیں ہوتی نہ زمانہ اس میں تبدیلی پید اکر تا ہے ،نہ کوئی جگہ اسے گھیرتی ہے اور نہ زبان اس کا وصف کر سکتی ہے۔ اس سے پانی کے قطروں اور آسمان کے ستا روں اور ہوا کے جھکڑوں کا شمار ،چکنے پتھر پر چیونٹی کے چلنے کی آواز اور اندھیری رات میں چھو ٹی چیونٹیوں کے قیام کرنے کی جگہ کوئی چیز پو شیدہ نہیں ہے۔و ہ پتوں کے گرنے کی جگہوں اور آنکھ کے چوری چھپے اشاروں کو جانتا ہے ۔(خطبہ 176)

يَعْلَمُ عَجِيجَ الْوُحُوشِ فِي الْفَلَوَاتِ وَ مَعَاصِيَ الْعِبَادِ فِي الْخَلَوَاتِ وَ اخْتِلَافَ النِّينَانِ فِي الْبِحَارِ الْغَامِرَاتِ وَ تَلَاطُمَ الْمَاءِ بِالرِّيَاحِ الْعَاصِفَاتِ وَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً نَجِيبُ اللَّهِ وَ سَفِيرُ وَحْيِهِ وَ رَسُولُ رَحْمَتِهِ
وہ (خدا وندِعالم )بیابانوں میں چوپاؤ ں کے نالے (سنتا ہے )،تنہائیوں میں بندوں کے گنا ہو ں سے آگاہ ہے اور انتھاہ دریاؤں میں مچھلیوں کی آمد و شد اور تند ہواؤں کے ٹکراؤ سے پانی کے تپھیڑوں کو جانتا ہے۔(خطبہ:196)


وَ أَشْهَدُ أَنَّ مَنْ سَاوَاكَ بِشَيْءٍ مِنْ خَلْقِكَ فَقَدْ عَدَلَ بِكَ وَ الْعَادِلُ بِكَ كَافِرٌ بِمَا تَنَزَّلَتْ بِهِ مُحْكَمَاتُ آيَاتِكَ وَ نَطَقَتْ عَنْهُ شَوَاهِدُ حُجَجِ بَيِّنَاتِكَ۔۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ جس نے تجھے تیری مخلوق میں سے کسی کے برابر جانا اس نے تیرا ہمسر بنا ڈالا اور تیرا ہمسر بنانے والاتیری کتاب کی محکم آیتوں کے مضامین اور ان حقائق کا جنہیں تیری طرف کے روشن دلائل واضح کررہے ہیں ،منکر ہے (خطبہ 89)

وَ لَا يُدْرَكُ بِالْحَوَاسِّ وَ لَا يُقَاسُ بِالنَّاسِ۔۔
نہ حواس سے وہ جانا پہچاناجاسکتا ہے ۔اور نہ انسانوں پر اس کا قیاس ہوسکتاہے(خطبہ 180)

الْحَمْدُ لِلَّهِ الْعَلِيِّ عَنْ شَبَهِ الْمَخْلُوقِينَ الْغَالِبِ لِمَقَالِ الْوَاصِفِينَ الظَّاهِرِ بِعَجَائِبِ تَدْبِيرِهِ لِلنَّاظِرِينَ وَ الْبَاطِنِ بِجَلَالِ عِزَّتِهِ عَنْ فِكْرِ الْمُتَوَهِّمِينَ
تما م حمد ا س اللہ کے لئے ہے جو مخلوقات کی مشابہت سے بلند تر ،توصیف کرنے والوں کے تعریفی کلمات سے بالاتر ،اپنے عجیب وغریب نظم و نسق کی بدولت دیکھنے والوں کے سامنے آشکارا اوراپنے جلال ِعظمت کی وجہ سے وہم و گمان دوڑانے والوں کے فکر و اوہام سے پوشیدہ ہے۔(خطبہ211)

اوصافِ الہیہ میں سے رازق کی صفت کو امامؑ نے متعدد بار بیان فرمایا ہے۔
ذَلِكَ مُبْتَدِعُ الْخَلْقِ وَ وَارِثُهُ وَ إِلَهُ الْخَلْقِ وَ رَازِقُهُ۔۔۔َسَمَ أَرْزَاقَهُمْ وَ أَحْصَى آثَارَهُمْ وَ أَعْمَالَهُمْ۔۔
وہی مخلوقات کو پیدا کرنے والا، اور اس کا وارث ہے اور کائنات کا معبود اور ان کا رازق ہے۔ ۔ ۔ اس نے سب کو روزی بانٹ رکھی ہے ۔ وہ سب کے عمل و کردار اور سانسوں کے شمار تک کو جانتا ہے(خطبہ88)

وَ هُوَ الْمَنَّانُ بِفَوَائِدِ النِّعَمِ وَ عَوَائِدِ الْمَزِيدِ وَ الْقِسَمِ عِيَالُهُ الْخَلَائِقُ ضَمِنَ أَرْزَاقَهُمْ وَ قَدَّرَ أَقْوَاتَهُمْ وَ نَهَجَ سَبِيلَ الرَّاغِبِينَ إِلَيْهِ وَ الطَّالِبِينَ مَا لَدَيْهِ وَ لَيْسَ بِمَا سُئِلَ بِأَجْوَدَ مِنْهُ بِمَا لَمْ يُسْأَلْ
وہ فائدہ بخش نعمتوں اور عطیوں کی فراوانیوں اور روزیوں (کی تقسیم) سے ممنون احسان بنانے والا ہے ساری مخلوق اس کا کنبہ ہے ۔ اس نے سب کی روزیاں مقرر کر رکھی ہیں۔ اس نے اپنے خواہش مندوں اور اپنی نعمت کے طلب گاروں کے لیے راہ کھول دی ہے ۔ وہ دستِ طلب کے نہ بڑھنے پر بھی اتنا ہی کریم ہے جتنا طلب و سوال کا ہاتھ بڑھنے پر۔(خطبہ89)

كُلُّ شَيْءٍ خَاشِعٌ لَهُ وَ كُلُّ شَيْءٍ قَائِمٌ بِهِ غِنَى كُلِّ فَقِيرٍ وَ عِزُّ كُلِّ ذَلِيلٍ وَ قُوَّةُ كُلِّ ضَعِيفٍ وَ مَفْزَعُ كُلِّ مَلْهُوفٍ مَنْ تَكَلَّمَ سَمِعَ نُطْقَهُ وَ مَنْ سَكَتَ عَلِمَ سِرَّهُ وَ مَنْ عَاشَ فَعَلَيْهِ رِزْقُهُ
ہر چیز اس کے سامنے عاجز و سرنگوں اور ہر شے اس کے سہارے وابستہ ہے ۔وہ ہر فقیر کا سرمایہ ہر ذلیل کی آبرو ، ہر کمزور کی توانائی اور ہر مظلوم کی پناہ گا ہے ۔ جو کہے، اس کی بات بھی وہ سنتا ہے اور جو چپ رہے اس کے بھید سے بھی وہ آگاہ ہے۔ جو زندہ ہے اس کے رزق کا ذمہ اس پر ہے ۔(خطبہ107)

اللَّهُمَّ انْشُرْ عَلَيْنَا غَيْثَكَ وَ بَرَكَتَكَ وَ رِزْقَكَ وَ رَحْمَتَكَ
خدا وند ا! تو ہم پر باران و برکت اور رزق و رحمت کا دامن پھیلادے (خطبہ:141)

اللہ سبحانہ کو اپنی جو صفت سب سے زیادہ پسند ہے اور جسے قرآن مجید میں الحمد کے بعد بیان فرمایا وہ اس کی ربوبیت ہے۔امیر المؤمنینؑ بھی اس وصف کو بار بار استعمال کرتے ہیں اور اکثر راز و نیاز کے لئے اسی صفت کو ذکر کیا۔ جنگِ صفین کی طرف جاتے ہوئے دعا میں ارشاد فرماتے ہیں:
اَللَّهُمَّ رَبَّ السَّقْفِ الْمَرْفُوعِ وَ الْجَوِّ الْمَكْفُوفِ الَّذِي جَعَلْتَهُ مَغِيضاً لِلَّيْلِ وَ النَّهَارِ وَ مَجْرًى لِلشَّمْسِ وَ الْقَمَرِ وَ مُخْتَلَفاً لِلنُّجُومِ السَّيَّارَةِ وَ جَعَلْتَ سُكَّانَهُ سِبْطاً مِنْ مَلَائِكَتِكَ لَا يَسْأَمُونَ مِنْ عِبَادَتِكَ وَ رَبَّ هَذِهِ الْأَرْضِ الَّتِي جَعَلْتَهَا قَرَاراً لِلْأَنَامِ وَ مَدْرَجاً لِلْهَوَامِّ وَ الْأَنْعَامِ وَ مَا لَا يُحْصَى مِمَّا يُرَى وَ مَا لَا يُرَى وَ رَبَّ الْجِبَالِ الرَّوَاسِي الَّتِي جَعَلْتَهَا لِلْأَرْضِ أَوْتَاداً وَ لِلْخَلْقِ اعْتِمَاداً إِنْ أَظْهَرْتَنَا عَلَى عَدُوِّنَا فَجَنِّبْنَا الْبَغْيَ وَ سَدِّدْنَا لِلْحَقِّ وَ إِنْ أَظْهَرْتَهُمْ عَلَيْنَا فَارْزُقْنَا الشَّهَادَةَ وَ اعْصِمْنَا مِنَ الْفِتْنَةِ۔ .
اے اللہ!اے اُس بلند آسمان اور تھمی ہوئی فضا کے پروردگار جسے تو نے شب و روز کے سر چھپانے ،چاند اور سورج کے گردش کرنے اور چلنے پھرنے والے ستاروں کی آمدورفت کی جگہ بنایا ہے اور جس میں بسنے والافرشتوں کا وہ گروہ بنایا ہے جو تیری عبادت سے اکتاتا نہیں ۔ اے اس زمین کے پروردگار جسے تو نے انسانوں کی قیام گاہ اور حشرات الارض اور چوپاؤں اور لاتعداد دیکھی اور اَن دیکھی مخلوق کے چلنے پھرنے کا مقام قرار دیا ہے۔ اے مضبوط پہاڑوں کے پروردگار جنہیں تو نے زمین کے لیے میخ اور مخلوقات کے لیے (زندگی کا) سہارا بنایا ہے ۔

ہم اس تحریر کو امیر المؤمنینؑ کی نہج البلاغہ میں موجود دعاؤں میں سے ایک پر ختم کرتے ہیں ۔اس دعا سے کو اکثر آپ پڑھتے تھے اس دعا سے یہ واضح ہوتا ہے کہ علی علیہ السلام اپنے رب سے کیسے باتیں کرتے ہیں اور ہمیں بھی اسی طرح کا درس دیتے ہیں۔

تمام حمد اس اللہ کے لئے ہے جس نے مجھے اس حالت میں رکھا کہ نہ مردہ ہو ں ،نہ بیمار ،نہ میری رگوں پر برص کے جراثیم کا حملہ ہوا ،نہ برے اعمال میں گرفتار ہو ں ،نہ بے اولاد ہوں ،نہ دین سے برگشتہ، نہ اپنے پروردگار کا منکر ہوں اور نہ ایمان سے متوحش، نہ میری عقل میں فتو ر آیا ہے اورنہ پہلی امتوں کے سے عذاب میں مبتلاہوں ۔میں اس کا بے اختیار بند ہ اور اپنے نفس پر ستم ران ہوں ۔



No comments:
Post a Comment