

تحریر ۔ جعفری صاحب


روضة المتقین، ج 13، ص 265


سچ مچ یہ کون سی ذات ہے جسے کوئی نہ پہچان سکا کوئی اسے خدا مان بیٹھا اور کوئی اس کی بندگی میں شک کرنے لگا۔

کہا کہ کیا علی نماز بھی پڑھتے تھے؟! کہ انہیں مسجد کوفہ میں شہید کر دیا۔
اور جس نے علی (ع) کو حقیقی معنی میں پہچانا وہ صرف خدا اور اس کا رسول (ص) ہیں۔



۔مناقب ابن شهرآشوب، ج 3، ص 268.
محمد تقی مجلسی، روضة المتقین، ج 13، ص 273

وہ پیغمبر جنہوں نے علی علیہ السلام کی شناخت کا اعتراف کیا انہوں نے آپ(ع) کے فضائل کو شمار سے باہر بتلایا کہ علی فضائل انتے زیادہ ہیں کہ کوئی انہیں شمار میں نہیں لا سکتا۔



بحارالانوار، ج 28، ص 197 و بحار ج 35، ص 8 ـ 9.
المناقب، الموفق بن احمد الخوارزمی، قم، جامعه مدرسین، چاپ چهارم، ص 32، ابن شاذان، مأة منقبه، قم مدرسة الامام المهدی(ع)، ص 177، حدیث 99، یہ حدیث اہلسنت کے عسقلانی، لسان المیزان، ج 5، ص 62، ذهبی، میزان الاعتدال، ص 467و...میں آئی ہے۔
المناقب، وہی، ص 32، حدیث 2؛ فرائد السمطین، ج 1، ص 19، ینابیع المودة، قندوزی باب 56، مناقب السبعون، حدیث 70.

علی علیہ السلام نہ صرف تمام اچھے لوگوں کے صفات کے تنہا حامل ہیں بلکہ پیغمبر اسلام (ص) کے علاوہ تمام اولو العزم پیغمبروں کے اوصاف کا بھی خلاصہ ہیں۔



بنقل از شیخ طوسی، امالی، قم، دارالثقافه، 1416، ص 416، مجلس 14، دیلمی، ارشادالقلوب، انتشارات شریف رضی، 1412 هـ.ق، ج 2، ص 363؛ علامه حلّی، شرح تجرید الاعتقاد، جامعه مدرسین قم، ص 221.
المناقب همان، ص 83، حدیث 70، و ص 311، حدیث 309

جو شخص تمام اوصاف کا مالک ہو وہ تمام دلوں کا محبوب ہوتا ہے۔ پیغمبر اکرم (ص) جو خود تمام کائنات کے محبوب ہیں وہ علی علیہ السلام سے عشق و محبت کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ اس لیے کہ آیت مباہلہ سے یہ ثابت ہے کہ علی (ع) نفس پیغمبر ہیں ’’ انفسنا‘‘ اور ہر انسان کو اپنی جان سب سے زیادہ عزیز ہوتی ہے۔ لہذا جب علی علیہ السلام نفس و جان پیغمبر ہیں تو یقینا ان کے نزدیک سب سے زیادہ عزیز ہیں۔




ابن عباس سے نقل ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: «علیّ منّی مثل رأسی من بدنی؛(۱۴) علی میرے نزدیک ایسے ہیں جیسے میرے بدن پر سر ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کی علی علیہ السلام سے محبت کسی غرض کے تحت نہیں تھی بلکہ آپ میں موجود فضائل و کمالات کی بنا پرآپ سے محبت تھی جو فضائل و کمالات خود پیغمبر اکرم (ص) نے اپنی زبان مبارک سے گاہ بگاہ بیان فرمائے تھے۔

کنزالعمّال، متقی هندی، بیروت، مؤسسة الرساله، ج 11، ص 622، حدیث 33024.
۱وہی حوالہ ، روایت 33023.
المناقب، همان، ص 64.
وہی حوالہ ، ص 69، حدیث 42.
خصال صدوق، جامعه مدرسین، ج 2، ص 651.
المناقب، وہی حوالہ ، ص 144، روایت 167

علی علیہ السلام وہ شخص نہیں جنہوں نے کسی مدرسے یا کسی معلم کے پاس علم اکتساب کیا ہو بلکہ آپ کا علم ’’ علم لدنی‘‘ ہے یعنی خداوند عالم کی طرف سے عطا کردہ ہے۔ اسی وجہ سے آپ کا علم تمام انسانوں سے برتر اور کسی سے قابل قیاس نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہلسنت کے منابع میں آپ کو ’’ اعلم الناس‘‘ کہا گیا ہے ذیل میں چند موارد کی طرف اشارہ کرتے ہیں:


تمام بشری علوم اور عصر حاضر کی ترقیاں علم کے اسی دسویں حصے کا نتیجہ ہیں اور علی علیہ السلام کا علم تمام انسانوں کے علم سے نو گنا زیادہ ہے۔ اور اس کا راز یہ ہے کہ اس کا سرچشمہ وحی الہی ہے یعنی پیغمبر اکرم (ص) کے ذریعے اللہ کی جانب سے علم ان تک منتقل ہوا ہے جیسا کہ خود آپ (ص) نے فرمایا: انا مدینة العلم و علیٌ بابها، فمن ارادالعلم فیأت الباب؛(۱۷) میں شہر علم ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں جو شخص شہر علم میں داخل ہونے کا ارادہ رکھتا ہے اسے چاہیے کہ دروازے سے داخل ہو۔

اے کاش خود حضرت عائشہ اس حدیث پر عمل کر لیتیں اور جنگ جمل میں امیر المومنین علی علیہ السلام کی نصیحتوں پر عمل کر لیتیں۔


وہی حوالہ ، ص 82، روایت 67، فرائد السمطین، جوینی، ج 1، ص 97، کفایة الطالب، الکرخی ص 332.
وہی حوالہ ، ص 82، روایت 68 ؛ و حلیة الاولیاء، ابی نعیم، ج 1، ص 64.
المناقب، وہی حوالہ ، ص 91، روایت 84، انساب الاشراف، ج 2، ص 124.
کنزالعمّال، وہی حوالہ ، ج 11، ص 605، حدیث 32926.
المناقب، وہی حوالہ ، ص 319، حدیث 322






یہ ماجرا سن کر معاویہ کے آنسو بھی نکل آئے اس نے آستین سے آنسو پوچھے اور سننے والے دوسرے لوگ بھی آنسو پوچھنے لگے۔ پھر معاویہ نے کہا: ہاں ابو الحسن ایسے ہی تھے۔(۲۱)

بحارالانوار، داراحیاء التراث العربی، ج 41، ص 21 ذیل روایت 28.
اشک شفق، ص 182



👈۲: ابن بریدہ سے نقل ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: «لکلّ نبیٍّ وصیّ و وارث و انّ علیّاً وصییی و وارثی؛(۲۳) ہر پیغمبر کا ایک جانشین اور وارث ہے میرا جانشین اور وارث علی ہیں۔
👈۳: حضرت علی علیہ السلام کی عبادت کے سلسلے میں جواوپر روایت بیان ہوئی ہے اس میں خدا نے کہا ہے کہ میں فرشتوں کو گواہ بناتا ہوں کہ علی میری مخلوق کے امام اور میرے بندوں کے وارث و سرپرست ہیں «اشهدکم انّه امام خلقی و مولی بریّتی؛(۲۴)
👈۴: عمرو بن میمون نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا (ص) نے علی علیہ السلام سے فرمایا: «انت ولیّ کلّ مؤمنٍ بعدی؛(۲۵) اے علی! آپ میرے بعد رہبر اور مومنین کے سرپرست ہیں۔
👈اس حدیث میں لفظ ’’ بعدی‘‘ سے ایک دم واضح ہو جاتا ہے کہ علی علیہ السلام پیغمبر اکرم کے بلافصل جانشین ہیں ورنہ اس حدیث کے کوئی معنی نہیں رہ جائیں گے۔
👈اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے امیر المومنین علی علیہ السلام کے فضائل و کمالات بیان کرنے میں کوئی کمی باقی نہیں چھوڑی مختلف طریقوں اور مختلف مناسبتوں سے آپ کو امت کا امام اور اپنا جانشین متعارف کروایا۔ یہاں تک کہ غدیر کے میدان میں سوا لاکھ حاجیوں کے مجمع میں آپ کا ہاتھ اٹھا کر فرمایا دیا کہ جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی مولی ہیں۔ اور قرآن کریم جیسی جاویدانی کتاب کے ساتھ علی علیہ السلام کو بھی جاویدانگی حیات عطا کرتے ہوئے فرمایا: «علی مع القرآن و القرآن مع علی لن یفترقا...؛(۲۶) علی قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی کے ساتھ اور یہ دونوں ہر گز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے۔
👈اور کبھی علی علیہ السلام کو حق کا محور اور مزکر قرار دیا اور اس حدیثِ متواتر میں فرمایا: «علیّ مع الحقّ و الحقّ مع علیّ و لن یفترقا حتی یردا علیّ الحوض یوم القیامة؛(۲۷) علی حق کے ساتھ اور حق علی کے ساتھ ہے اور یہ دونوں ہر گز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ روز قیامت حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہوں۔
👈ایک اور روایت میں فرمایا: «سیکون من بعدی فتنة، فاذا کان ذلک، فالزموا علی بن ابی طالب، فانّه الفاروق بین الحقّ و الباطل؛(۲۸) عنقریب میرے بعد فتنہ اور اختلاف ہو گا پس تم لوگ علی بن ابی طالب کا ساتھ دینا اس لیے کہ حق اور باطل کے درمیان فرق ڈالنے والے صرف علی ہیں۔
👈اور فرمایا: جو شخص علی سے الگ ہو وہ مجھ سے الگ ہے اور جو مجھ سے الگ ہو جائے خدا سے دور ہو جائے گا۔(۲۹)
💥حوالہ
وہی حوالہ ، ص 319، حدیث 322.
ابن کثیر دمشقی، البدایة و النهایة، بیروت، مکتبة المعارف، ج 7، ص346.
المستدرک علی الصحیحین، حاکم نیشابوری، بیروت، دارالمعرفه، ج 3، ص 124، ینابیع المودة، سلیمان قندوزی، باب 20، ص 103، تاریخ الخلفاء سیوطی، باب فضائل علی(ع)، ص173.
المستدرک للحاکم همان، ج 3، ص 124، حدیث 61، فرائد السمطین، همان، ج 1، ص 439، ینابیع المودة، همان، باب 20، ص 104، هیثمی، مجمع الزوائد، ج 9، ص 135.
المناقب، همان، ص 105، روایت 108.
وہی حوالہ ، ص 105، روایت 109.
خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ج 6، ص 221، شماره 3275؛ ینابیع المودة، همان، باب 42، ص 148؛ تاریخ دمشق، ابن عساکر، ج 2، ص 431.
:
💥قرآن علی (ع) کی شان میں
👈اہلسنت کے علماء اور مفسرین نے قرآن کریم کی بہت ساری آیتیں امام علی علیہ السلام کی شان میں ذکر کی ہیں اور اس بات کی تائید کی ہے کہ پیغمبر اکرم نے ان کے نزول کے بعد فرمایا تھا کہ یہ آیتیں علی(ع) کی شان میں نازل ہوئی ہیں جیسا کہ ابن حجر، خطیب بغدادی، سیوطی، گنجی، شافعی، ابن عساکر، شیخ سلیمان قندوزی و۔۔۔ نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا: «نزلت فی علیّ ثلاث مأئة آیه؛(۳۰) علی کہ شان میں تین سو آیتیں نازل ہوئی ہیں۔
👈نیز ابن عباس نے پیغمبر اکرم (ص) سے نقل کیا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا: «ما انزل آیة فیها «یا ایّها الذین آمنوا» و علیّ رأسها و امیرها؛ کوئی آیت ایسی نازل نہیں ہوئی جس مومنین کو مخاطب کیا ہواور علی امیر مومنین ہونے کی وجہ سے اس کے پہلے مخاطب نہ ہو۔(۳۱) یعنی یہ تمام آیات سب سے پہلے علی علیہ السلام کی شان میں ہیں۔
💥حوالہ
المناقب، وہی حوالہ ، ص 267، ح 249.
المناقب، وہی حوالہ ، ص 316، حدیث 316؛ فرائد السمطین، ج 1، ص 78.
💥علی علیہ السلام کی اطاعت
👈جب علی علیہ السلام امام اور رہبر ہیں محبوب پیغمبر ہیں علم لدنی کے مالک ہیں خدا کی بندگی میں بالاترین مقام پر فائز ہیں حق و باطل کے درمیان فرق پیدا کرنے والے ہیں حق ہمیشہ آپ کے ساتھ ہے قرآن ہمیشہ آپ کے ساتھ ہے تو ایسے شخص کی اطاعت اور پیروی کرنا پوری امت مسلمہ پر واجب ہو جاتا ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے امیر المومنین علی علیہ السلام کی اطاعت کرنے کے لیے عجیب تعبیرات کا استعمال کیا ہے جن کے نمونے درج ذیل ایک حدیث میں ہیں:
👈۱: سلمان نے حضرت زہرا (س) سے نقل کیا کہ آپ نے رسول خدا(ص) سے نقل فرمایا کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا: علیکم بعلیّ بن ابی طالب علیه السّلام فانّه مولاکم فاحبّوه، و کبیرکم فاتّبعوه، و عالمکم فاکرموه، و قائدکم الی الجنّة(فعزّزوه) و اذا دعاکم فاجیبوه و اذا امرکم فاطیعوه، احبّوه بحبّی و اکرموه بکرامتی، ماقلت لکم فی علیٍّ الّا ما امرنی به ربّی جلّت عظمته؛(۳۲) تم لوگوں پر علی کی اطاعت واجب ہے چونکہ وہ تمہارے مولا ہیں انہیں دوست رکھو اور تمہارے بزرگ ہیں ان کی اتباع کرو تمہارے عالم ہیں ان کا اکرام اور احترام کرو اور جنت کی طرف لے جانے والے تمہارے رہبر ہیں انہیں عزیز سمجھو وہ جب تمہیں کسی کام کی طرف بلائیں ان کی اطاعت کرو میرے محبت کی وجہ سے ان سے محبت کرو میری بزرگی کی وجہ سے انہیں بزرگ سمجھو میں نے علی کے بارے میں تم سے وہی کہا ہے جو میرے پروردگار نے مجھے حکم دیا ہے۔
👈یہ حدیث اس قدر واضح اور آشکار ہے کہ مزید اس کے بارے میں کوئی وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں ہے پیغمبر اکرم نے اس میں واضح طور پر فرما دیا ہے کہ میں نے جو کچھ علی کے بارے میں کہا ہے سب اللہ کے حکم سے کہا ہے۔ یقینا اگر امت مسلمہ صرف اسی حدیث پر عمل پیرا ہو جاتی تو کسی قسم کے انحراف اور اختلاف کا شکار نہ ہوتی۔
👈۲: پیغمبر اکرم (ص) نے جناب عمار سے فرمایا: «یا عمّار! ان رأیت علیّاً قدسلک وادیّاً و سلک النّاس وادیاً غیره فاسلک مع علیّ ودع النّاس انّه لن بدلک علی ردی و لن یخرجک من الهدی؛(۳۳) اے عمار! اگر تم دیکھو کہ علی ایک طرف جا رہے ہیں اور دیگر تمام لوگ دوسری طرف جا رہے ہیں تو تم علی کے ساتھ جانا اور باقی لوگوں کو چھوڑ دینا اس لیے کہ علی گمراہی کی طرف رہنمائی نہیں کریں گے اور راہ ہدایت سے الگ نہیں کریں گے۔
👈لیکن افسوس سے کہنا سے پڑتا ہے کہ لوگوں کی اکثریت اس راستے سے منحرف ہو گئی جس پر علی علیہ السلام چل رہے تھے اور جناب عمار کو پیغمبر اکرم (ص) کی طرف سے کی گئی اس وصیت نظر انداز کر کے لوگوں نے علی علیہ السلام کا ساتھ نہ دیا اور نتیجہ میں سب نے گمراہی کا راستہ انتخاب کر لیا اور عالم اسلام کے اندروہ مشکلات وجود میں آگئیں جو نہیں آنا چاہیے تھیں اورآج تک امت مسلمہ اپنے کئے کا خمیازہ بگت رہی ہے۔ نہ دنیا میں سکون ملا اور نہ آخرت میں نصیب ہو گا۔ امت مسلمہ کی اکثریت نے علی علیہ السلام کا ساتھ چھوڑ کر ان کا کچھ نہیں بگاڑا بلکہ اپنا سب کچھ بگاڑ دیا۔ علی علیہ السلام تو وارث دوجہاں ہیں ہی کوئی انہیں مانے یا نہ مانے، علی(ع) امام برحق ہیں ہی کوئی انہیں قبول کرے یا کرے۔ علی (ع) قسیم النار و الجنہ ہیں ہی کوئی مانے یا مانے۔ دنیا میں تو ان سے بھاگ سکتے ہیں آخرت میں بھی بھاگ کر دکھائیں تو تب بتائیں
💥حوالہ
کنزالعمال، وہی حوالہ ، ج 11، ص 614، روایت 32971.
تاریخ بغداد، خطیب بغدادی، ج 4، ص 410، و ابونعیم، حلیة الاولیاء، ج 1، ص
💥التماس دعا ۔ ایکسپوز ٹیم 💥
No comments:
Post a Comment