Thursday, March 22, 2018

صحیح حدیث امام علی ع کے فضائل اور بارہ آئمہ ع کے نام صحیح حدیث میں


یہ دو صحیح الاسناد احادیث ہیں ایک امام علی ع کے فضائل بزبان نبی کریم ﷺ اور ایک بارہ آئمہ ع نام سمیت ایک ہی حدیث میں (جس پر بعض اہل سنت اعتراض کرتے ہیں کہ آپکے پاس ایسی کوئی صحیح حدیث نہیں):
قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرَ مُحَّمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ قَالَ حَدَّثَنِي أََبِِي قَالَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى الْعَطَّارِ قَالَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ خَالِدٍ عَنِ أَبِي عَبْدِ اللهِ جَعْفَرَ بْنِ مُحَّمَّدِ الصَّادِقِ عَنْ آبَائِهِ ع قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص لِعَلِيٍّ ع يَا عَلِيُّ أَنْتَ مِنِّي وَ أَنَا مِنْكَ وَلِيُّكَ وَلِيِّي وَ وَلِيِّي وَلِيُّ اللَّهِ وَ عَدُوُّكَ عَدُوِّي وَ عَدُوِّي عَدُوُّ اللَّهِ يَا عَلِيُّ أَنَا حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبَكَ وَ سِلْمٌ لِمَنْ سَالَمَكَ يَا عَلِيُّ لَكَ كَنْزٌ فِي الْجَنَّةِ وَ أَنْتَ ذُو قَرْنَيْهَا يَا عَلِيُّ أَنْتَ قَسِيمُ الْجَنَّةِ وَ النَّارِ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ عَرَفَكَ وَ عَرَفْتَهُ وَ لَا يَدْخُلُ النَّارَ إِلَّا مَنْ أَنْكَرَكَ وَ أَنْكَرْتَهُ يَا عَلِيُّ أَنْتَ وَ الْأَئِمَّةُ مِنْ وُلْدِكَ‏ عَلَى الْأَعْرَافِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تَعْرِفُ الْمُجْرِمِينَ بِسِيمَاهُمْ وَ الْمُؤْمِنِينَ بِعَلَامَاتِهِمْ يَا عَلِيُّ لَوْلَاكَ لَمْ يُعْرَفِ الْمُؤْمِنُونَ بَعْدِي
شیخ مفید نے کہا: ہم سے بیان کیا ابو جعفر محمد بن علی بن حسین (شیخ صدوق) نے، کہا مجھ سے بیان کیا میرے والد نے، کہا مجھ سے بیان کیا محمد بن یحیی عطار نے، کہا ہم سے بیان کیا احمد بن محمد بن عیسی نے جس نے علی بن حکم سے اور اس نے ہشام بن سالم سے جس نے سلیمان بن خالد سے جس نے ابو عبد اللہ جعفر بن محمد الصادق علیہ السلام سے روایت کی، انہوں نے اپنے ابا و اجداد سے روایت کی، فرمایا کہ رسول الله ﷺ نے علی علیہ السلام سے فرمایا: یا علی، آپ مجھ سے ہیں اور میں آپ سے ہیں اور آپکا دوست میرا دوست ہے، اور میرا دوست الله ﷻ کا دوست ہے، اور آپکا دشمن میرا دشمن ہے اور میرا دشمن الله ﷻ کا دشمن ہے۔ یا علی، میں اس سے حالت جنگ میں ہوں جو آپ سے جنگ کرے اور اس سے سلامتی میں ہوں جو آپ سے سلامتی میں ہے۔ یا علی، آپ کیلئے جنت میں خزانہ ہے اور آپکے پاس اسکے دونوں حصے ہیں۔ یا علی، آپ جنت و جہنم کو تقسیم کرنے والے ہیں، کوئی جنت میں داخل نہیں ہوگا مگر وہ جو آپکو پہچانے اور آپ اسکو پہچانتے ہوں، اور کوئی جہنم میں داخل نہیں ہوگا مگر وہ جو آپکا انکار کرے اور آپ اسکا انکار کرتے ہوں۔ یا علی، آپ اور آپکی اولاد سے آئمہ اعراف پر ہونگے قیامت کے دن اور آپ مجرموں کو انکے نشانوں سے پہچان لیں گے اور مومنین کو انکی علامات سے۔ یا علی، اگر آپ نہ ہوتے تو مومنین میرے بعد نہ پہچانے جاتے۔ (1)
سند بہترین ہے، تمام راوی ثقہ ہیں سند میں اور اپنے زمانے کے معروف چہرے ہیں۔
شیخ نمازی شاھرودی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔ (مستدركات علم الرجال، ج 4، ص 129
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْبَرْقِيِّ عَنْ أَبِي هَاشِمٍ دَاوُدَ بْنِ الْقَاسِمِ الْجَعْفَرِيِّ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الثَّانِي (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ أَقْبَلَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) وَمَعَهُ الْحَسَنُ بن علي (عَلَيْهما السَّلام) وَهُوَ مُتَّكِىٌ عَلَى يَدِ سَلْمَانَ فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ فَجَلَسَ إِذْ أَقْبَلَ رَجُلٌ حَسَنُ الْهَيْئَةِ وَاللِّبَاسِ فَسَلَّمَ عَلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ فَرَدَّ عَلَيْهِ السَّلامَ فَجَلَسَ ثُمَّ قَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَسْأَلُكَ عَنْ ثَلاثِ مَسَائِلَ إِنْ أَخْبَرْتَنِي بِهِنَّ عَلِمْتُ أَنَّ الْقَوْمَ رَكِبُوا مِنْ أَمْرِكَ مَا قُضِيَ عَلَيْهِمْ وَأَنْ لَيْسُوا بِمَأْمُونِينَ فِي دُنْيَاهُمْ وَآخِرَتِهِمْ وَإِنْ تَكُنِ الاخْرَى عَلِمْتُ أَنَّكَ وَهُمْ شَرَعٌ سَوَاءٌ فَقَالَ لَهُ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) سَلْنِي عَمَّا بَدَا لَكَ قَالَ أَخْبِرْنِي عَنِ الرَّجُلِ إِذَا نَامَ أَيْنَ تَذْهَبُ رُوحُهُ وَعَنِ الرَّجُلِ كَيْفَ يَذْكُرُ وَيَنْسَى وَعَنِ الرَّجُلِ كَيْفَ يُشْبِهُ وَلَدُهُ الاعْمَامَ وَالاخْوَالَ فَالْتَفَتَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) إِلَى الْحَسَنِ فَقَالَ يَا أَبَا مُحَمَّدٍ أَجِبْهُ قَالَ فَأَجَابَهُ الْحَسَنُ (عَلَيْهِ السَّلام) فَقَالَ الرَّجُلُ أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا الله وَلَمْ أَزَلْ أَشْهَدُ بِهَا وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ الله وَلَمْ أَزَلْ أَشْهَدُ بِذَلِكَ وَأَشْهَدُ أَنَّكَ وَصِيُّ رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) وَالْقَائِمُ بِحُجَّتِهِ وَأَشَارَ إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ وَلَمْ أَزَلْ أَشْهَدُ بِهَا وَأَشْهَدُ أَنَّكَ وَصِيُّهُ وَالْقَائِمُ بِحُجَّتِهِ وَأَشَارَ إِلَى الْحَسَنِ (عَلَيْهِ السَّلام) وَأَشْهَدُ أَنَّ الْحُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ وَصِيُّ أَخِيهِ وَالْقَائِمُ بِحُجَّتِهِ بَعْدَهُ وَأَشْهَدُ عَلَى عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ أَنَّهُ الْقَائِمُ بِأَمْرِ الْحُسَيْنِ بَعْدَهُ وَأَشْهَدُ عَلَى مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ أَنَّهُ الْقَائِمُ بِأَمْرِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ وَأَشْهَدُ عَلَى جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ بِأَنَّهُ الْقَائِمُ بِأَمْرِ مُحَمَّدٍ وَأَشْهَدُ عَلَى مُوسَى أَنَّهُ الْقَائِمُ بِأَمْرِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ وَأَشْهَدُ عَلَى عَلِيِّ بْنِ مُوسَى أَنَّهُ الْقَائِمُ بِأَمْرِ مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ وَأَشْهَدُ عَلَى مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ أَنَّهُ الْقَائِمُ بِأَمْرِ عَلِيِّ بْنِ مُوسَى وَأَشْهَدُ عَلَى عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ بِأَنَّهُ الْقَائِمُ بِأَمْرِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ وَأَشْهَدُ عَلَى الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ بِأَنَّهُ الْقَائِمُ بِأَمْرِ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ وَأَشْهَدُ عَلَى رَجُلٍ مِنْ وُلْدِ الْحَسَنِ لا يُكَنَّى وَلا يُسَمَّى حَتَّى يَظْهَرَ أَمْرُهُ فَيَمْلاهَا عَدْلاً كَمَا مُلِئَتْ جَوْراً وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ وَرَحْمَةُ الله وَبَرَكَاتُهُ ثُمَّ قَامَ فَمَضَى فَقَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ يَا أَبَا مُحَمَّدٍ اتْبَعْهُ فَانْظُرْ أَيْنَ يَقْصِدُ فَخَرَجَ الْحَسَنُ بن علي (عَلَيْهما السَّلام) فَقَالَ مَا كَانَ إِلا أَنْ وَضَعَ رِجْلَهُ خَارِجاً مِنَ الْمَسْجِدِ فَمَا دَرَيْتُ أَيْنَ أَخَذَ مِنْ أَرْضِ الله فَرَجَعْتُ إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) فَأَعْلَمْتُهُ فَقَالَ يَا أَبَا مُحَمَّدٍ أَ تَعْرِفُهُ قُلْتُ الله وَرَسُولُهُ وَأَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ أَعْلَمُ قَالَ هُوَ الْخَضِرُ (عَلَيْهِ السَّلام).
ہمارے کچھ اصحاب سے، جنہوں نے احمد بن محمد برقی سے جس نے ابی ہاشم داود بن قاسم جعفری سے جس نے ابو جعفر ثانی (امام تقی) علیہ السلام سے روایت کی، فرمایا کہ امیر المومنین آئے اور انکے ساتھ حسن بن علی ع تھے اور وہ سلمان کے ہاتھ کا سہارا لیئے ہوئے تھے، تو وہ مسجد حرام میں داخل ہوئے اور بیٹھے کہ ایک خوبصورت بندہ آیا اچھے لباس والا اور امیر المومنین ع کو سلام کیا، انہوں نے سلام کا جواب دیا تو وہ بیٹھ گیا۔ پھر کہا: یا امیر المومنین میں آپ سے تین مسائل کے بارے میں پوچھوں گا، اگر آپ نے مجھے وہ بتا دیئے تو میں جان جاؤں گا کہ جن لوگوں نے آپکے امر (خلافت) کو غصب کیا ہے انہوں نے اپنے خلاف ہی فیصلہ کیا ہے۔ اور وہ اپنی دنیا و آخرت میں سلامت نہیں۔ اور اگر دوسری بات ہوئی (جواب نہ دے سکے) تو میں جان جاؤں گا کہ آپ اور وہ برابر ہیں۔ امیر المومنین علیہ السلام نے اسکو کہا: مجھ سے سوال کر اسکے بابت جو تیرے لیئے ظاہر ہوا ہے۔ اس نے کہا: مجھے بتایئے کہ جب کوئی شخص سوتا ہے اسکی روح کہاں جاتی ہے؟ اور اس شخص کے بابت کہ وہ کیسے یاد کرتا ہے اور بھولتا ہے؟ اور اس شخص کے متعلق کہ کیسے اسکی اولاد اسکے چچاؤں اور خالاوں سے مشابہ ہوتی ہے؟ امیر المومنین علیہ السلام امام حسن علیہ السلام کی جانب مڑے اور فرمایا: اے ابا محمد! اسکو جواب دو۔ کہا کہ پھر امام حسن علیہ السلام نے اسکو جواب دیا (سوالات کا)۔ اس شخص نے کہا: میں گوائی دیتا ہوں کہ کوئی خدا نہیں سوائے الله ﷻ کے اور میں یہ گواہی دینے سے نہیں رکوں گا، اور کہ محمد ﷺ الله ﷻ کے رسول ہیں، اور میں یہ گواہی دینے سے نہیں رکوں گا، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ رسول الله ﷺ کے وصی ہیں اور انکی حجت کے ساتھ قائم ہیں اور میں یہ گواہی دینے سے نہیں رکوں گا، اور اس شخص نے امیر المومنین کی طرف اشارہ کیا، (اور کہا) میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ انکے وصی ہیں اور انکی حجت کے ساتھ قائم ہیں اور امام حسن علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا، اور (کہا) میں گواہی دیتا ہوں کہ حسین بن علی اپنے بھائی کے وصی ہیں اور انکے بعد انکی حجت سے قائم ہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ علی بن حسین (زین العابدین) قائم ہیں حسین علیہ السلام کے امر کے ساتھ انکے بعد اور میں گواہی دیتا ہوں اس پر کہ محمد بن علی (الباقر) علیہما السلام قائم ہیں امر کے ساتھ علی بن حسین علیہ السلام کے، اور میں گواہی دیتا ہوں اس پر کہ جعفر بن محمد (الصادق) علیہما السلام قائم ہیں محمد (الباقر) علیہ السلام کے امر کے ساتھ اور میں گواہی دیتا ہوں اس پر کہ موسی (الکاظم) علیہ السلام قائم ہیں جعفر بن محمد علیہما السلام کے امر کے ساتھ اور میں اس پر گواہی دیتا ہوں کہ علی بن موسی (الرضا) علیہما السلام قائم ہیں موسی بن جعفر علیہما السلام کے امر سے اور میں گواہی دیتا ہوں اس پر کہ محمد بن علی (التقي) علیہما السلام قائم ہیں علی بن موسی علیہما السلام کے امر سے اور میں گواہی دیتا ہوں علی بن محمد (النقي) علیہما السلام پر کہ وہ قائم ہیں محمد بن علی علیہما السلام کے امر سے اور میں گواہی دیتا ہوں حسن بن علی (العسكري) پر کہ وہ قائم ہیں علی بن محمد کے امر سے اور میں گواہی دیتا ہوں ایک شخص پر اولاد حسن علیہ السلام سے جسکی نہ کنیت لی جائے گی نہ نام، حتی کہ اسکا امر ظاہر ہوگا تو وہ زمین کو عدل سے بھر دے گا جیسے وہ ظلم و جور سے بھری ہوگی، اور سلام ہو آپ پر یا امیر المومنین اور الله ﷻ کی رحمت اور اسکی برکات، پھر وہ شخص کھڑا ہوا اور چلا گیا۔ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا: اے ابا محمد! اسکے پیچھے جاؤ اور دیکھو وہ کہاں گیا ہے۔ حسن بن علی علیہما السلام نکلے اور (واپس آکر) فرمایا: میں نے جیسے ہی اپنا قدم مسجد کے باہر رکھا مجھے سمجھ نہیں آئی کہ الله ﷻ کی زمین سے وہ بندہ کہاں چلا گیا، تو میں امیر المومنین علیہ السلام کے پاس لوٹا اور انکو وہ بتا دیا۔ انہوں نے فرمایا: اے ابا محمد! کیا تم اسکو جانتے ہو؟ میں نے کہا: الله ﷻ اور اسکا رسول ﷺ اور امیر المومنین علیہ السلام بہتر جانتے ہیں۔ امام ع نے فرمایا: وہ حضرت خضر علیہ السلام تھے۔ (2)
علامہ مجلسی: حدیث صحیح ہے۔ (مرآة العقول / 6 / 203)
أحقر: سيد علي أصدق نقوي
اللهم صل على محمد ﷺ وآله
مآخذ:
(1) الأمالي للمفيد، ص 213
(2) الكافي، ج 1، ص 525 و 526

"یا ساریہ الی الجبل" والی روایت کی حقیقت



"یا ساریہ الی الجبل" والی روایت کی حقیقت
"ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب نے ایک لشکر بھیجا اور اس کا سالار ساریہ کو بنایا۔ ایک دن جمعہ کے خطبہ کے دوران انہوں نے یکایک یہ پکارنا شروع کر دیا (اے ساریہ پہاڑ- پہاڑ) اس طرح تین مرتبہ کہا۔ پھر اس لشکر کا پیغامبر مدینہ آیا۔ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس لشکر کا حال دریافت کیا تو اس نے کہا کہ اے امیر المومنیین ہم لوگ شکست کھا گئے اور اس شکست کی حالت میں تھے کہ ہم نے یکایک ایک آواز سنی جس نے تین بار کہا کہ اے ساریہ پہاڑ کی طرف رخ کرو۔ ہم نے پشت پہاڑ سے لگا دی اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے دشمن کو شکست دیدی۔ لوگوں نے کہا کہ اے امیر المومنین آپ ہی تو تھے جو اس طرح چیخے تھے۔ (رواہ البیہقی- مشکوہ)
اس روایت کی علتیں : پہلی غور طلب بات یہ ہے کہ نبی پاک کی وفات کے 400 سال بعد تک یہ واقعہ صحاح ستہ سمیت حدیث کی کسی قابل ذکر کتاب میں نہیں ملتا۔ راوی کے مطابق یہ واقعہ خطبہ جمعہ کے دوران پیش آیا۔ اور کتنی عجیب بات ہے کہ سوائے عبداللہ بن عمر کے کسی اور صحابی یہ تابعی نے اسے کہیں بھی روایت نہیں کیا۔ کتنے صحابہ اور تابعین اس خطبہ کے دوران وہاں موجود ہوں گے۔ اس واقعہ کو پانچویں صدی میں بیہقی نے اپنی کتاب دلایل النبوت میں اور پھر ابن مردویہ کے ذکر کیا۔
یہ روایت دو سندوں سے آئی ہے ۔ پہلی سند ( عن ابن وھب عن یحی بن ایوب عن ابن عجلان عن نافع عن ابن عمر) اابن عجلان راوی نافع سے روایت کرتا ہے اور اس محمد بن عجلان کے بارے میں امام عقیلی کہتے ہیں کہ یہ نافع کی روایتوں میں اضطراب کا شکار رہتا ہے ( تہذیب التہذیب ج 9 ص342
امام بخاری نے اس کا ذکر ضعفاء میں کیا ہے (خلاصہ تہذیب کمال للخزرجی 290) یحی القطان کہتے ہیں کہ نافع سے روایت میں یہ مضطرب ہے (میزان الاعتدال ج 3 ص 102) . امام مالک کہتے ہیں کہ ابن عجلان حدیث کے معاملات جاننے والا عالم نہیں تھا (میزان جلد 3 ص 102)۔
ابن عجلان کا شاگرد یحی بن ایوب المصری بھی جو اس روایت کا ایک فرد ہے سخت ضعیف راوی ہے۔ ابو حاتم کہتے ہیں کہ اس کی حدیث لکھی تو جا سکتی ہے مگر اس سے حجت لانا روا نہیں۔ امام نسائی کہتے ہیں کہ یہ قوی نہیں۔ ابن سعد کا کہنا ہے کہ وہ منکر الحدیث ہے۔ الدار قطنی کہتے ہیں کہ اس کی بعض روایتوں میں اضطراب ہے۔ امام احمد کہتے ہیں کہ وہ بہت زیادہ غلطیاں کرتا ہے۔ عقیلی نے اس کو ضعفاء میں شمار کیا ہے۔
دوسری روایت کچھ ایسے ہے۔ (عن ابی بکر احمد بن موسی بن مردویہ قال حدثنا عبداللہ بن اسحق بن ابراھیم اخبرنا جعفر الصایغ حدثنا حسین بن محمد الروذی اخبرنا فرات بن السایب عن میمون بن مھران عن ابن عمر عن ابیہ۔۔۔۔۔) اس روایت میں فرات بن السایب راوی جو میمون بن مھران کا شاگرد ہے جھوٹا اور روایت گڑھنے والا تھا۔ امام بخاری کہتے ہیں کہ منکر الحدیث تھا محدثین نے اسے چھوڑ دیا (التاریخ الکبیر ج1 ص 304) یحی بن معین کہتے ہیں کہ اس کی کچھ حیثیت نہیں۔ الدار قطنی متروک کہتے ہیں۔ امام احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ وہ محمد بن زیاد بن الطحان کی طرح ہے۔ اور اس پر بھی میمون بن مھران سے روایت کرنے میں وہی تہمتیں ہیں جو محمد بن زیاد پر ہیں محمد بن زیاد کو امام احمد کانا کذاب کہتے ہیں۔ ابن المدینی کہتے ہیں کہ میں نے جو کچھ اس سے حاصل کیا تھا اس کو میں نے پھینک دیا۔ ابو زرعہ کہتے ہیں کہ وہ جھوٹ بولتا تھا۔ ( لسان المیزان ج4 ص 430-431 ، میزان الاعتدال ج 2 ص 325 ج 3 ص60)
اس خاکسار نے محدثین کی تحقیق اس حدیث کے بارے میں نقل کر دی ہیں تاکہ میرے تمام مسلمان بھائی اس روایت کی حقیقت تک پہنج جائیں



Wednesday, March 7, 2018

شیعہ اثنا عشری کا عقیدہ توحید



شیعہ اثنا عشری کا عقیدہ توحیدجان لیجئے کہ توحید کے بارے ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ واحد و یکتا ہے ۔ کوئی چیز اس کے مثل و مانند نہیں۔ ہمشیہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا ۔ سنتا ہے ( ہر آواز کا علم رکھتا ہے ) دیکھتا ہے ( ہر دکھائی دینے والی چیز کا علم رکھتا ہے) ہر چیز سے باخبر ہے ۔ وہ ایسی ذات ہے کہ کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہے ۔ زندہ ہے اور زوال نہیں ہے غالب ہے منزہ ہے سب چیزوں کا علم رکھتا ہے۔ ہر شے پر قدرت رکھتا ہے ۔ بے نیاز ہے ۔ اس کی ذات ایسی ہے کہ اسے جوہر ، عرض ، صورت ، خط ، سطح ،ثقل ، خفت ، حرکت ، سکون ، مکان اور زمان ۔ جیسی صفات سے متصف نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ سب مادی ( یعنی مادی مخلوق کی ) صفات ہیں اور وہ اپنی مخلوقات کی تمام صفات سے منزہ اور مبریٰ ہے ۔ نہ ہی وہ ایسی ذات ہے ہے جس سے فضل و کمال کی نفی کی جائے اور نہ ہی اس کے کمال کو مخلوق کے کسی کمال سے مشابہ قرار دیا جا سکتا ہے ۔ وہ موجود ہے لیکن دیگر موجودات کی طرح نہیں ہے وہ یکتا ہے بے نیاز ہے ۔ نہ اس سے کوئی پیدا ہوا کہ جسے وارث بنایا جائے اور نہ وہ خود کسی سے پیدا ہوا کہ اس کی صفات یا ذات میں شریک قرار پائے۔ اس کا کوئی ہم سر نہیں ۔ اس کی کوئی نظیر نہیں ہے ۔ کوئی ضد نہیں ہے ۔ کوئی شبیہ نہیں ہے۔ کوئی شریک حیات نہیں ہے ۔ کوئی مثل و نظیر نہیں ہے اور نہ ہی اس کا کوئی مشیرکار ہے ۔ وہ ایسا لطیف و خبیر ہے کہ آنکھیں اسے نہیں دیکھ سکتیں ، وہ آنکھوں کے خیال کا احاطہ رکھتا ہے۔ اسے اونگھ آتی ہے نہ نہ نیند ۔ ہر چیز کا وہی خالق ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ خلق اور حکمرانی کرنا اسی کاحق ہے۔ بابرکت ہے وہ ذات جو تمام جہانوں کا رب ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ کو مخلوق جیسا سمجھے وہ مشرک ہے اور جو شخص توحید کے باب میں سابق الذکر عقیدے کے علاوہ کسی عقیدے کو شیعوں کی طرف منسوب کرے، وہ جھوٹا ہے

ہر وہ حدیث جو کتاب خدا کے مطابق نہ ہو ، وہ باطل ہے اور اگر اس قسم کی حدیث ہمارے علماء کی کتابوں میں پائی جاے تو وہ مدلسس ہو گی جن روایات سے جاہلوں کو یہ خیال ہوتا ہے کہ ان میں خدا کو مخلوق سے تشبیہ دی گئ ہے تو ان کے معانی بھی وہی مراد لیے جائیں گے جو اس قسم کی قرآنی آیات کے سلسلے میں لیے جاتے ہیں 
چناچہ آیت قرآنی ہے۔
"ہر چیز فنا ہونے والی ہے سواے اس کی زات کے "
القصص 88

اس آیت میں وجہ سے مراد دین اسلام ہے جس سے اللہ تعالی تک رسائی حاصل ہوتی ہے اور خدا کی طرف توجہ کی جاتی ہے اسی طرح ایک اور آیت شریفہ ہے
"جس دن مشکل ترین لمحہ آےگا اور انہیں سجدے کے لیے بلایا جاے گا تو یہ لوگ سجدہ نہ کر سکیں گے "
القلم 42
(اگر یہاں کشف ساقی سے مراد پنڈلی کھولنا مراد لیاجاے جیسا کہ عامہ کا نظریہ ہے تو اللہ کی نسبت تشبیہ اور تجسم کے باطل عقیدے کا تسلیم و اقرار لازم آے گا)
پسکشف ساقی سے مراد قیامت کی ہولناکی؛شدت اور سختی کا نمایاں ہونا ہے ۔ ایک اور مقام پر قرآن مجید میں آیا ہے 
"اور اس میں اپنی روح پھونک دی "
الحجر 29یعنی حضرت آدم اور حضرت عیسی علیہ السلام کے بدن میں روح ڈال دی ہے اور اللہ تعالی کا یہ فرمان ۔ روحی میری روح ۔بالکل اسی طرح ہے جس طرح خود اللہ تعالی نے دیگر موارد میں فرمایا ہے ۔ بیتی میرا گھر ۔ عبدی میرا بندہ ۔۔ جنتی میری جنت ۔۔ناری میری دوزخ ۔۔سمانی میرا آسمان اور اراضی میری زمین ۔۔یعنی یہاں روحی سے مراد میری مخلوق ہے اور قرآن میں ہے 
اللہ کے تو دونوں ہاتھ کھلے ہوے ہیں "
المائدہ 64
یہاں ید سے مراد نعمت اور یداہ سے مراد دنیا و آخرت کی نعمت ہے ایک اور مقام پر فرمایا 
"اور آسمان کو ہم نے اپنی قوت سے بنایا"
الداریات 47
اید۔ ید ہاتھ کی جمع ہے جس سے مراد اللہ کی قوت و طاقت ہے اس مطلب کی تائید اس آیت سے بھی ہوتی ہے 
"اور (ان سے) ہمارے بندے داؤد کا قصہ بیان کیجیے جو طاقت کا مالک تھے"
ص 17
جن روایات پر مخالفین اور بےدین افراد کے حملے ہوتے ہیں ان میں اسی قسم کے الفاظ وارد ہوے ہیں لہذا ان لفظوں کے وہی معنی مراد لینے چاہیے جو قرآن میں ان کے معانی مراد لیے گے ہیں 

اعتقادات شیخ صدوق رحمۃ اللہ علیہ ص 15-16

💥 امام علی علیہ السلام کے مختصر فضائل اور کمالات


💥 امام علی علیہ السلام کے مختصر فضائل اور کمالات💥

تحریر ۔ جعفری صاحب 

👈حضرت علی علیہ السلام کے فضائل اور کمالات کے بارے میں کچھ لکھنا جتنا آسان ہے اتنا مشکل بھی ہے اس لیے کہ حضرت علی علیہ السلام فضائل و کمالات کا ایسا بیکراں سمندر ہیں جس میں انسان جتنا غوطہ لگاتا جائے گا اتنا زیادہ فضائل کے موتی حاصل کرتا جائے گا یہ ایسا ایسا سمندر ہے جس کی تہہ تک پہنچنا ناممکن ہے۔ کیا خوب کہا خلیل ابن احمد نے جب ان سے امیر المومنین علی علیہ السلام کے فضائل کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا: کیف اصف رجلاً کتم اعادیه محاسنه و حسداً و احبّائه خوفاً و ما بین الکلمتین ملأالخائفین؛(۱) میں کیسے اس شخص کی توصیف و تعریف کروں جس کے دشمنوں نے حسادت اور دوستوں نے دشمنوں کے خوف سے اس کے فضائل پر پردہ پوشی کی ہو ان دو کرداروں کے درمیان مشرق سے مغرب تک فضائل کی دنیا آباد ہے

💥حوالہ
روضة المتقین، ج 13، ص 265

👈اس مقالہ میں امیر المومنین علی علیہ السلام کے بعض ان کمالات و فضائل کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو پیغمبر گرامی اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ نے اپنی زبان مبارک سے بیان فرمائے اور اہلسنت کی معتبر کتابوں میں نقل ہوئے ہیں:

👈علی (ع) کو خدا اور نبی (ص) کے علاوہ کسی نے نہ پہچانا

سچ مچ یہ کون سی ذات ہے جسے کوئی نہ پہچان سکا کوئی اسے خدا مان بیٹھا اور کوئی اس کی بندگی میں شک کرنے لگا۔

💥در مسجد کوفه شهیدش کردند گفتند مگر اهل نماز است علی؟!

کہا کہ کیا علی نماز بھی پڑھتے تھے؟! کہ انہیں مسجد کوفہ میں شہید کر دیا۔

اور جس نے علی (ع) کو حقیقی معنی میں پہچانا وہ صرف خدا اور اس کا رسول (ص) ہیں۔

👈پیغمبر اکرم (ص) نے امیر المومنین (ع) سے خطاب میں کہا: «یا علی ما عرف اللّه حق معرفته غیری و غیرک و ما عرفک حق معرفتک غیر اللّه و غیری؛(۲) اے علی! خدا کو میرے اور آپ کے علاوہ کما حقہ کسی نے نہیں پہچانا، اور آپ کو میرے اور خدا کے علاوہ کما حقہ کسی نے نہیں پہچانا۔۔۔

👈اور دوسری جگہ فرمایا: «یا علی لایعرف اللّه تعالی الّا انا و انت و لایعرفنی الّا اللّه و انت و لا یعرفک الّا اللّه و انا؛(۳) اے علی ! خدا کو میرے اور آپ کے علاوہ کسی نے نہیں پہچانا اور مجھے خدا اور آپ کے علاوہ کسی نے نہیں پہچانا اور آپ کو میرے اور خدا کے علاوہ کسی نے نہیں پہچانا۔

💥حوالہ
۔مناقب ابن شهرآشوب، ج 3، ص 268.

محمد تقی مجلسی، روضة المتقین، ج 13، ص 273

👈لا تحصیٰ فضائل

وہ پیغمبر جنہوں نے علی علیہ السلام کی شناخت کا اعتراف کیا انہوں نے آپ(ع) کے فضائل کو شمار سے باہر بتلایا کہ علی فضائل انتے زیادہ ہیں کہ کوئی انہیں شمار میں نہیں لا سکتا۔

👈ابن عباس کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: «لو انّ الفیاض(۴) اقلام و البحر مدادٌ و الجنّ حسّابٌ و الانس کتابٌ مااحصوا فضائل علیّ بن ابی طالبٍ؛(۵) اگر تمام درخت قلم، تمام دریا سیاہی، تمام جن حساب کرنے اور تمام انسان لکھنے بیٹھ جائیں تو علی علیہ السلام کے فضائل کا شمار نہیں کر سکتے۔

👈اور دوسری جگہ آپ نے فرمایا: «انّ اللّه تعالی جعل لاخی علیٍّ فضائل لاتحصی کثرة فمن ذکر فضیلةً من فضائله مقرّابها غفر اللّه له ما تقدّم من ذنبه و ماتأخّر ‘‘ بیشک خداوند عالم نے میرے بھائی علی کے لیے بے شمار فضائل قرار دئے ہیں کہ اگر کوئی شخص ان میں سے ایک فضیلت کو عقیدت کے ساتھ بیان کرے تو اس کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے۔ . و من کتب فضیلةً من فضائله لم تزل الملائکة تستغفرله ما بقی لتلک الکتابه رسم، و من استمع فضیلةً من فضائله کفّر اللّه له الذّنوب الّتی اکتسبها بالاستماع و من نظر الی کتابٍ من فضائله کفّر اللّه له الذّنوب الّتی اکتسبها بالنّظر،(۶) اور اگر کوئی شخص ان فضائل میں سے کسی ایک کو لکھے تو جب تک وہ نوشتہ باقی رہے گا ملائکہ اس کے لیے استغفار کرتے رہیں گے اور اگر کوئی ان فضائل میں سے کسی ایک کو سنے تو خدا وند عالم اس کے ان تمام گناہوں کو جو اس نے کان کے ذریعے سے انجام دئے ہوں گے معاف کر دے گا۔ اور اگر کوئی شخص علی کے فضائل کے نوشتہ پر نگاہ کرے گا تو خدا اس کے ان تمام گناہوں کو جو اس نے آنکھ کے ذریعے انجام دئے ہوں گے معاف کر دے گا۔

💥حوالہ
بحارالانوار، ج 28، ص 197 و بحار ج 35، ص 8 ـ 9.

المناقب، الموفق بن احمد الخوارزمی، قم، جامعه مدرسین، چاپ چهارم، ص 32، ابن شاذان، مأة منقبه، قم مدرسة الامام المهدی(ع)، ص 177، حدیث 99، یہ حدیث اہلسنت کے عسقلانی، لسان المیزان، ج 5، ص 62، ذهبی، میزان الاعتدال، ص 467و...میں آئی ہے۔

المناقب، وہی، ص 32، حدیث 2؛ فرائد السمطین، ج 1، ص 19، ینابیع المودة، قندوزی باب 56، مناقب السبعون، حدیث 70.

💥آپ تنہا تمام کمالات کے مالک ہیں

علی علیہ السلام نہ صرف تمام اچھے لوگوں کے صفات کے تنہا حامل ہیں بلکہ پیغمبر اسلام (ص) کے علاوہ تمام اولو العزم پیغمبروں کے اوصاف کا بھی خلاصہ ہیں۔

👈اہلسنت و الجماعت کے ایک معروف عالم بیہقی نے پیغمبر اکرم (ص) سے یوں روایت کی ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا: «من احبّ ان ینظر الی آدم فی علمه و الی نوحٍ(ع) فی تقواه و ابراهیم فی حلمه و الی موسی فی عبادته فلینظر الی علی بن طالب علیه الصّلوة و السّلام؛(۷) جو شخص آدم (ع) کے علم کو، نوح (ع) کے تقویٰ کو، ابراہیم (ع) کے حلم کو اور موسی(ع) کی عبادت کو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ علی بن ابی طالب پر نگاہ کرے۔

👈اسی روایت کو دوسرے انداز میں بھی نقل کیا گیا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: «من اراد ان ینظر الی آدم فی علمه و الی نوح فی مهمه و الی یحیی بن زکریّا فی زهده، و الی موسی بن عمران فی بطشه، فلینظر الی علی بن ابی طالب علیه السلام؛(۸) جو شخص آدم کو ان کے علم میں، نوح کو ان کے فہم و ادراک میں، یحییٰ کو ان کے زہد میں اور موسی کو ان کی عبادت میں دیکھنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ علی بن ابی طالب پر نگاہ کرے

💥حوالہ
بنقل از شیخ طوسی، امالی، قم، دارالثقافه، 1416، ص 416، مجلس 14، دیلمی، ارشادالقلوب، انتشارات شریف رضی، 1412 هـ.ق، ج 2، ص 363؛ علامه حلّی، شرح تجرید الاعتقاد، جامعه مدرسین قم، ص 221.

المناقب همان، ص 83، حدیث 70، و ص 311، حدیث 309

💥علی علیہ السلام سے پیغمبر اکرم(ص) کو محبت

جو شخص تمام اوصاف کا مالک ہو وہ تمام دلوں کا محبوب ہوتا ہے۔ پیغمبر اکرم (ص) جو خود تمام کائنات کے محبوب ہیں وہ علی علیہ السلام سے عشق و محبت کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ اس لیے کہ آیت مباہلہ سے یہ ثابت ہے کہ علی (ع) نفس پیغمبر ہیں ’’ انفسنا‘‘ اور ہر انسان کو اپنی جان سب سے زیادہ عزیز ہوتی ہے۔ لہذا جب علی علیہ السلام نفس و جان پیغمبر ہیں تو یقینا ان کے نزدیک سب سے زیادہ عزیز ہیں۔

👈اسی وجہ سے پیغمبر اکرم (ص) نے بارہا فرمایا : «من احبّ علیّاً فقد احبّنی...؛(۹) جو علی کو دوست رکھے مجھے دوست رکھے گا۔ نیز فرمایا: «محبّک محبّی و مبغضک مبغضی؛(۱۰) تمہارا دوست میرا دوست ہے اور تمہارا دشمن میرا دشمن ہے۔

👈ایک شخص نے پیغمبر اکرم (ص) سے پوچھا: «یا رسول اللّه انّک تحبّ علیّاً؟ قال: او ماعلمت انّ علیّاً منّی و انا منه؛(۱۱) اے رسول خدا آپ علی کو چاہتے ہیں؟ فرمایا: کیا تم نہیں جانتے علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں۔

👈مناقب میں پوری سند کے ساتھ رسول اسلام (ص) سے نقل ہوا ہے: «انّ اللّه عزّ و جلّ امرنی بحبّ اربعةٌ من اصحابی و اخبرنی انّه یحبّهم. قلنا: یا رسول اللّه من هم؟ فلکنّا یحبّ ان یکون منهم، فقال: الا انّ علیّاً منهم ثم سکت، ثمّ قال: الا انّ علیّاً منهم ثمّ سکت؛(۱۲) خداوند عالم نے مجھے اپنے صحابیوں میں سے چار صحابی کو دوست رکھنے کا حکم دیا ہے اور اس نے خبر دی ہے کہ وہ بھی ان سے محبت کرتا ہے۔ میں نے پوچھا اے رسول خدا وہ کون ہیں؟ ہم میں سے بھی ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ ان میں سے ہو۔ رسول اسلام(ص) نے فرمایا: آگاہ ہو جاو علی ان میں سے ایک ہیں۔ اس کے بعد آپ خاموش ہو گئے پھر دوبارہ فرمایا: یقینا علی ان میں سے ایک ہیں اور اس کے بعد آپ نے خاموشی اختیار کر لی۔

👈حضرت عائشہ کہتی ہیں: پیغمبر اکرم (ص) جب حالت احتضار میں تھے تو فرمایا: ادعوا الیّ حبیبی؛ میرے دوست کو میرے پاس بلاو۔ میں ابوبکر کی تلاش میں گئی اور انہیں بلا کر لائی۔ جب ابوبکر پیغمبر اکرم (ص) کے پاس آئے تو پیغمبر اکرم (ص) ان سے اپنی نگاہیں موڑ لی اور پھر فرمایا: ادعوا الیّ حبیبی؛ حفصہ عمر کی تلاش میں گئیں اور عمر کو بلا کر لائیں جونہی پیغمبر کی نگاہ عمر پر پڑی تو آپ نے فورا منہ پھیر لیا۔ پھر فرمایا: ادعوا الیّ حبیبی؛ عائشہ کہتی ہیں: میں نے کہا وائے ہو تم لوگوں پر رسول خدا (ص) علی بن ابی طالب کو بلوانا چاہتے ہیں۔ خدا کی قسم وہ صرف علی کو چاہتے ہیں۔ اس کے بعد علی علیہ السلام کو بلوایا گیا جب پیغمبر اسلام (ص) نے علی کو دیکھا تو انہیں سینے سے لگایا، اس کے بعد انہیں ایک ہزار حدیثیں تعلیم کی کہ جن میں سے ہر ایک ہزاروں حدیثوں کا باب تھی۔(۱۳)

ابن عباس سے نقل ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: «علیّ منّی مثل رأسی من بدنی؛(۱۴) علی میرے نزدیک ایسے ہیں جیسے میرے بدن پر سر ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کی علی علیہ السلام سے محبت کسی غرض کے تحت نہیں تھی بلکہ آپ میں موجود فضائل و کمالات کی بنا پرآپ سے محبت تھی جو فضائل و کمالات خود پیغمبر اکرم (ص) نے اپنی زبان مبارک سے گاہ بگاہ بیان فرمائے تھے۔

💥حوالہ
کنزالعمّال، متقی هندی، بیروت، مؤسسة الرساله، ج 11، ص 622، حدیث 33024.

۱وہی حوالہ ، روایت 33023.

المناقب، همان، ص 64.

وہی حوالہ ، ص 69، حدیث 42.

خصال صدوق، جامعه مدرسین، ج 2، ص 651.

المناقب، وہی حوالہ ، ص 144، روایت 167

💥علی علیہ السلام کا علم

علی علیہ السلام وہ شخص نہیں جنہوں نے کسی مدرسے یا کسی معلم کے پاس علم اکتساب کیا ہو بلکہ آپ کا علم ’’ علم لدنی‘‘ ہے یعنی خداوند عالم کی طرف سے عطا کردہ ہے۔ اسی وجہ سے آپ کا علم تمام انسانوں سے برتر اور کسی سے قابل قیاس نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہلسنت کے منابع میں آپ کو ’’ اعلم الناس‘‘ کہا گیا ہے ذیل میں چند موارد کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

👈۱: پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: «اعلم امّتی من بعدی علیّ بن ابی طالب علیه السّلام؛(۱۵) میری امت میں سب سے زیادہ دانا اور عالم شخص علی بن بن ابی طالب ہیں۔

👈۲: عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں: پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: «قُسّمت الحکمة علی عشرة اجزاءٍ فاعطی علیّ تسعة و النّاس جزءً واحداً؛(۱۶) حکمت اور علم کے دس جزء اور حصے ہیں جن میں سے نو صرف علی کو عطا کئے گئے ہیں اور ایک حصہ باقی امت کے پاس ہے۔

تمام بشری علوم اور عصر حاضر کی ترقیاں علم کے اسی دسویں حصے کا نتیجہ ہیں اور علی علیہ السلام کا علم تمام انسانوں کے علم سے نو گنا زیادہ ہے۔ اور اس کا راز یہ ہے کہ اس کا سرچشمہ وحی الہی ہے یعنی پیغمبر اکرم (ص) کے ذریعے اللہ کی جانب سے علم ان تک منتقل ہوا ہے جیسا کہ خود آپ (ص) نے فرمایا: انا مدینة العلم و علیٌ بابها، فمن ارادالعلم فیأت الباب؛(۱۷) میں شہر علم ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں جو شخص شہر علم میں داخل ہونے کا ارادہ رکھتا ہے اسے چاہیے کہ دروازے سے داخل ہو۔

👈۳: جناب عائشہ علی علیہ السلام کے بارے میں کہتی ہیں: «هو اعلم النّاس بالسّنة؛(۱۸) علی سنت پیغمبر کو سب سے زیادہ جاننے والے ہیں۔

اے کاش خود حضرت عائشہ اس حدیث پر عمل کر لیتیں اور جنگ جمل میں امیر المومنین علی علیہ السلام کی نصیحتوں پر عمل کر لیتیں۔

👈۴: پیغمبر اکرم (ص) نے جناب فاطمہ زہرا (س) کو علی علیہ السلام کے عقد میں دے کر شادی کروا کر فرمایا: «زوّجتک خیر اهلی، اعلمهم علماً و افضلهم حلماً و اوّلهم سلماً؛(۱۹) میں نے آپ کی شادی سب سے بہترین رشتہ دار سے کرائی ہے جو علم میں سب سے زیادہ عالم، حلم میں سب سے افضل، اور اسلام قبول کرنے میں سابق ترین شخص ہے۔

💥حوالہ
وہی حوالہ ، ص 82، روایت 67، فرائد السمطین، جوینی، ج 1، ص 97، کفایة الطالب، الکرخی ص 332.

وہی حوالہ ، ص 82، روایت 68 ؛ و حلیة الاولیاء، ابی نعیم، ج 1، ص 64.

المناقب، وہی حوالہ ، ص 91، روایت 84، انساب الاشراف، ج 2، ص 124.

کنزالعمّال، وہی حوالہ ، ج 11، ص 605، حدیث 32926.

المناقب، وہی حوالہ ، ص 319، حدیث 322

💥علی (ع) کی عبادت اور بندگی

👈امیر المومنین علی علیہ السلام کی عبادت ’’شہرہ آفاق‘‘ رکھتی ہے۔ علم لدنی کے مالک خداوند عالم کی جتنی معرفت رکھتے ہیں اسی مقدار میں اس کی عبادت اور اس کی بارگاہ میں راز و نیاز اور راتوں کو جاگ جاگ کر مناجات کرتے ہیں۔ یہ مسئلہ اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ خداوند عالم ملائکہ کے سامنے حضرت علی علیہ السلام کی عبادتوں پر فخر کرتا ہے۔

👈پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:ایک دن صبح سویرے جبرئیل انتہائی خوشی کے ساتھ میرے پاس آئے میں نے پوچھا: میرے دوست کیا بات ہوئی ہے کہ آج آپ اتنے خوش نظرآ رہے ہیں؟ کہا: اے محمد! کیونکر خوش نہ ہوں جبکہ خداوند عالم نے جو اکرام و انعام آپ کے بھائی، جانشین اور امام امت علی بن ابی طالب پر کیا ہے اس نے میری آنکھوں کو نورانی کر دیا ہے۔ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: کیسے خدا نے میرے بھائی اور امام امت کو اکرام سے نوازا ہے؟

👈«قال: باهی بعبادته البارحة ملائکته و حملة عرشه و قال: ملائکتی انظروا الی حجّتی فی ارضی علی عبادی بعد نبیّی، فقد عفر خدّه فی التّراب تواضعاً لعظمتی، اشهدکم انّه امام خلقی و مولی بریّتی؛(۲۰) فرمایا: خداوند عالم نے علی کی گزشتہ رات کی عبادت پر ملائکہ اور حاملین عرش کے سامنے اتنا فخر کیا ہے اور فرمایا ہے: اے میرے فرشتو! دیکھو میرے نبی کے بعد میرے بندوں پر میری حجت کو، کہ کس طرح سے اس نے اپنا چہرا اور رخسار خاک پر رکھا ہوا ہے میری عظمت کے سامنے اس کے اس تواضع کی وجہ سے میں تمہیں گواہ بناتا ہے کہ وہ میری مخلوق کا رہبر ہے اور میرے بندوں کا وارث اور سرپرست ہے۔

👈شیعہ کتابوں میں علی علیہ السلام کی عبادت کے بارے میں اتنے واقعات نقل ہوئے ہیں کہ جن کو بیان کرنے کے لیے ایک مفصل کتاب کی ضرورت ہے۔ اس مختصر مقالہ میں صرف ایک واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

👈ضرار بن ضمرہ معاویہ کے دربار میں علی علیہ السلام کے بارے میں کہتا ہے: میں خدا کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے علی کو کئی مربتہ دیکھا جب رات ہر چیز کو اپنی گھٹا میں ڈبو دیتی تھی اور آسمان پر ستارے سامنے آ جاتے تھے تو اس وقت میں دیکھتا تھا کہ علی محراب عبادت میں کھڑے ہوتے تھے اور اپنی داڑھی کو ہاتھ میں لیے ہوتے تھے اور اس شخص کی طرح تڑپ رہے ہوتے تھے جس کو سانپ نے کاٹ دیا ہو اور اس شخص کی طرح گریہ و زاری کرتے تھے جس کو شدید غم لگ گیا ہو۔۔۔ ( علی کے گریہ و زاری کی آوازیں ابھی بھی میرے کانوں میں گونجتی ہیں جو وہ کہتے تھے) آہ آہ قلت الزاد و طول السفر (زاد سفر کتنا تھوڑا اور سفر کتنا طولانی، راستہ کتنا کٹھن اور منزل کتنی دور)۔

یہ ماجرا سن کر معاویہ کے آنسو بھی نکل آئے اس نے آستین سے آنسو پوچھے اور سننے والے دوسرے لوگ بھی آنسو پوچھنے لگے۔ پھر معاویہ نے کہا: ہاں ابو الحسن ایسے ہی تھے۔(۲۱)

💥حوالہ
بحارالانوار، داراحیاء التراث العربی، ج 41، ص 21 ذیل روایت 28.

اشک شفق، ص 182

💥امامت علی (ع)

👈دریائے علم کے مالک اور بے مثل و نظیر عبادتگزار ہی کے لیے سزاوار ہے کہ امام امت ہو۔ وہ روایات جو امام علی علیہ السلام کے بلا فصل امام ہونے پر اہلسنت کی کتابوں میں نقل ہوئی ہیں اتنی زیادہ ہیں کہ انہیں یہاں پر بیان نہیں کیا سکتا ہے جیسے حدیث ثقلین، حدیث منزلت، حدیث یوم الدار، حدیث غدیر اوراس طرح کی معروف حدیثیں حد تواتر سے بھی زیادہ ہیں جو سب اہلسنت کی کتابوں میں موجود ہیں۔ ہم یہاں پر چند ایک روایتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن کی دلالت صریح ہے اور معمولا بہت کم بیان کی جاتی ہیں:

👈۱: پیغمبر اکرم (ص) نے علی علیہ السلام سے فرمایا: اپنے دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنیں تاکہ مقربین میں سے ہوں عرض کیا یا رسول اللہ کون سے انگوٹھی پہنوں؟۔ فرمایا: عقیقِ سرخ کی۔ چونکہ یہ وہ پتھر ہے جس نے خدا کی وحدانیت کا اقرار کیا ہے «ولی بالنّبوّة ولک بالوصیّة ولولدک بالامامة...؛(۲۲) اور میری نبوت، آپ کی بلافصل جانشینی اور آپ کے بعد گیارہ اماموں کی امامت کا اقرار کیا ہے۔

👈۲: ابن بریدہ سے نقل ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: «لکلّ نبیٍّ وصیّ و وارث و انّ علیّاً وصییی و وارثی؛(۲۳) ہر پیغمبر کا ایک جانشین اور وارث ہے میرا جانشین اور وارث علی ہیں۔

👈۳: حضرت علی علیہ السلام کی عبادت کے سلسلے میں جواوپر روایت بیان ہوئی ہے اس میں خدا نے کہا ہے کہ میں فرشتوں کو گواہ بناتا ہوں کہ علی میری مخلوق کے امام اور میرے بندوں کے وارث و سرپرست ہیں «اشهدکم انّه امام خلقی و مولی بریّتی؛(۲۴)

👈۴: عمرو بن میمون نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا (ص) نے علی علیہ السلام سے فرمایا: «انت ولیّ کلّ مؤمنٍ بعدی؛(۲۵) اے علی! آپ میرے بعد رہبر اور مومنین کے سرپرست ہیں۔

👈اس حدیث میں لفظ ’’ بعدی‘‘ سے ایک دم واضح ہو جاتا ہے کہ علی علیہ السلام پیغمبر اکرم کے بلافصل جانشین ہیں ورنہ اس حدیث کے کوئی معنی نہیں رہ جائیں گے۔

👈اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے امیر المومنین علی علیہ السلام کے فضائل و کمالات بیان کرنے میں کوئی کمی باقی نہیں چھوڑی مختلف طریقوں اور مختلف مناسبتوں سے آپ کو امت کا امام اور اپنا جانشین متعارف کروایا۔ یہاں تک کہ غدیر کے میدان میں سوا لاکھ حاجیوں کے مجمع میں آپ کا ہاتھ اٹھا کر فرمایا دیا کہ جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی مولی ہیں۔ اور قرآن کریم جیسی جاویدانی کتاب کے ساتھ علی علیہ السلام کو بھی جاویدانگی حیات عطا کرتے ہوئے فرمایا: «علی مع القرآن و القرآن مع علی لن یفترقا...؛(۲۶) علی قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی کے ساتھ اور یہ دونوں ہر گز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے۔

👈اور کبھی علی علیہ السلام کو حق کا محور اور مزکر قرار دیا اور اس حدیثِ متواتر میں فرمایا: «علیّ مع الحقّ و الحقّ مع علیّ و لن یفترقا حتی یردا علیّ الحوض یوم القیامة؛(۲۷) علی حق کے ساتھ اور حق علی کے ساتھ ہے اور یہ دونوں ہر گز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ روز قیامت حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہوں۔

👈ایک اور روایت میں فرمایا: «سیکون من بعدی فتنة، فاذا کان ذلک، فالزموا علی بن ابی طالب، فانّه الفاروق بین الحقّ و الباطل؛(۲۸) عنقریب میرے بعد فتنہ اور اختلاف ہو گا پس تم لوگ علی بن ابی طالب کا ساتھ دینا اس لیے کہ حق اور باطل کے درمیان فرق ڈالنے والے صرف علی ہیں۔

👈اور فرمایا: جو شخص علی سے الگ ہو وہ مجھ سے الگ ہے اور جو مجھ سے الگ ہو جائے خدا سے دور ہو جائے گا۔(۲۹)

💥حوالہ
وہی حوالہ ، ص 319، حدیث 322.

ابن کثیر دمشقی، البدایة و النهایة، بیروت، مکتبة المعارف، ج 7، ص346.

المستدرک علی الصحیحین، حاکم نیشابوری، بیروت، دارالمعرفه، ج 3، ص 124، ینابیع المودة، سلیمان قندوزی، باب 20، ص 103، تاریخ الخلفاء سیوطی، باب فضائل علی(ع)، ص173.

المستدرک للحاکم همان، ج 3، ص 124، حدیث 61، فرائد السمطین، همان، ج 1، ص 439، ینابیع المودة، همان، باب 20، ص 104، هیثمی، مجمع الزوائد، ج 9، ص 135.

المناقب، همان، ص 105، روایت 108.

وہی حوالہ ، ص 105، روایت 109.

خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ج 6، ص 221، شماره 3275؛ ینابیع المودة، همان، باب 42، ص 148؛ تاریخ دمشق، ابن عساکر، ج 2، ص 431.
:
💥قرآن علی (ع) کی شان میں

👈اہلسنت کے علماء اور مفسرین نے قرآن کریم کی بہت ساری آیتیں امام علی علیہ السلام کی شان میں ذکر کی ہیں اور اس بات کی تائید کی ہے کہ پیغمبر اکرم نے ان کے نزول کے بعد فرمایا تھا کہ یہ آیتیں علی(ع) کی شان میں نازل ہوئی ہیں جیسا کہ ابن حجر، خطیب بغدادی، سیوطی، گنجی، شافعی، ابن عساکر، شیخ سلیمان قندوزی و۔۔۔ نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا: «نزلت فی علیّ ثلاث مأئة آیه؛(۳۰) علی کہ شان میں تین سو آیتیں نازل ہوئی ہیں۔

👈نیز ابن عباس نے پیغمبر اکرم (ص) سے نقل کیا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا: «ما انزل آیة فیها «یا ایّها الذین آمنوا» و علیّ رأسها و امیرها؛ کوئی آیت ایسی نازل نہیں ہوئی جس مومنین کو مخاطب کیا ہواور علی امیر مومنین ہونے کی وجہ سے اس کے پہلے مخاطب نہ ہو۔(۳۱) یعنی یہ تمام آیات سب سے پہلے علی علیہ السلام کی شان میں ہیں۔

💥حوالہ
المناقب، وہی حوالہ ، ص 267، ح 249.

المناقب، وہی حوالہ ، ص 316، حدیث 316؛ فرائد السمطین، ج 1، ص 78.

💥علی علیہ السلام کی اطاعت

👈جب علی علیہ السلام امام اور رہبر ہیں محبوب پیغمبر ہیں علم لدنی کے مالک ہیں خدا کی بندگی میں بالاترین مقام پر فائز ہیں حق و باطل کے درمیان فرق پیدا کرنے والے ہیں حق ہمیشہ آپ کے ساتھ ہے قرآن ہمیشہ آپ کے ساتھ ہے تو ایسے شخص کی اطاعت اور پیروی کرنا پوری امت مسلمہ پر واجب ہو جاتا ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے امیر المومنین علی علیہ السلام کی اطاعت کرنے کے لیے عجیب تعبیرات کا استعمال کیا ہے جن کے نمونے درج ذیل ایک حدیث میں ہیں:

👈۱: سلمان نے حضرت زہرا (س) سے نقل کیا کہ آپ نے رسول خدا(ص) سے نقل فرمایا کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا: علیکم بعلیّ بن ابی طالب علیه السّلام فانّه مولاکم فاحبّوه، و کبیرکم فاتّبعوه، و عالمکم فاکرموه، و قائدکم الی الجنّة(فعزّزوه) و اذا دعاکم فاجیبوه و اذا امرکم فاطیعوه، احبّوه بحبّی و اکرموه بکرامتی، ماقلت لکم فی علیٍّ الّا ما امرنی به ربّی جلّت عظمته؛(۳۲) تم لوگوں پر علی کی اطاعت واجب ہے چونکہ وہ تمہارے مولا ہیں انہیں دوست رکھو اور تمہارے بزرگ ہیں ان کی اتباع کرو تمہارے عالم ہیں ان کا اکرام اور احترام کرو اور جنت کی طرف لے جانے والے تمہارے رہبر ہیں انہیں عزیز سمجھو وہ جب تمہیں کسی کام کی طرف بلائیں ان کی اطاعت کرو میرے محبت کی وجہ سے ان سے محبت کرو میری بزرگی کی وجہ سے انہیں بزرگ سمجھو میں نے علی کے بارے میں تم سے وہی کہا ہے جو میرے پروردگار نے مجھے حکم دیا ہے۔

👈یہ حدیث اس قدر واضح اور آشکار ہے کہ مزید اس کے بارے میں کوئی وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں ہے پیغمبر اکرم نے اس میں واضح طور پر فرما دیا ہے کہ میں نے جو کچھ علی کے بارے میں کہا ہے سب اللہ کے حکم سے کہا ہے۔ یقینا اگر امت مسلمہ صرف اسی حدیث پر عمل پیرا ہو جاتی تو کسی قسم کے انحراف اور اختلاف کا شکار نہ ہوتی۔

👈۲: پیغمبر اکرم (ص) نے جناب عمار سے فرمایا: «یا عمّار! ان رأیت علیّاً قدسلک وادیّاً و سلک النّاس وادیاً غیره فاسلک مع علیّ ودع النّاس انّه لن بدلک علی ردی و لن یخرجک من الهدی؛(۳۳) اے عمار! اگر تم دیکھو کہ علی ایک طرف جا رہے ہیں اور دیگر تمام لوگ دوسری طرف جا رہے ہیں تو تم علی کے ساتھ جانا اور باقی لوگوں کو چھوڑ دینا اس لیے کہ علی گمراہی کی طرف رہنمائی نہیں کریں گے اور راہ ہدایت سے الگ نہیں کریں گے۔

👈لیکن افسوس سے کہنا سے پڑتا ہے کہ لوگوں کی اکثریت اس راستے سے منحرف ہو گئی جس پر علی علیہ السلام چل رہے تھے اور جناب عمار کو پیغمبر اکرم (ص) کی طرف سے کی گئی اس وصیت نظر انداز کر کے لوگوں نے علی علیہ السلام کا ساتھ نہ دیا اور نتیجہ میں سب نے گمراہی کا راستہ انتخاب کر لیا اور عالم اسلام کے اندروہ مشکلات وجود میں آگئیں جو نہیں آنا چاہیے تھیں اورآج تک امت مسلمہ اپنے کئے کا خمیازہ بگت رہی ہے۔ نہ دنیا میں سکون ملا اور نہ آخرت میں نصیب ہو گا۔ امت مسلمہ کی اکثریت نے علی علیہ السلام کا ساتھ چھوڑ کر ان کا کچھ نہیں بگاڑا بلکہ اپنا سب کچھ بگاڑ دیا۔ علی علیہ السلام تو وارث دوجہاں ہیں ہی کوئی انہیں مانے یا نہ مانے، علی(ع) امام برحق ہیں ہی کوئی انہیں قبول کرے یا کرے۔ علی (ع) قسیم النار و الجنہ ہیں ہی کوئی مانے یا مانے۔ دنیا میں تو ان سے بھاگ سکتے ہیں آخرت میں بھی بھاگ کر دکھائیں تو تب بتائیں

💥حوالہ
کنزالعمال، وہی حوالہ ، ج 11، ص 614، روایت 32971.

تاریخ بغداد، خطیب بغدادی، ج 4، ص 410، و ابونعیم، حلیة الاولیاء، ج 1، ص

💥التماس دعا ۔ ایکسپوز ٹیم 💥

👈علمائے حق کے خلاف ایک سازش کا ازالہ


👈علمائے حق کے خلاف ایک سازش کا ازالہ

👈آجکل بعض دشمنان تشیّع دل کھول کر علمائے حقّہ کی توہین کرنے میں مشغول ہیں بالخصوص رہبر معظّم آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای (حفظہ اللہ) کی۔ اس بغض و عناد کی وجہ فقط یہ ہے کہ یہ علماء ان کی کچھ مخصوص گمراہ کن باتوں کو نہیں مانتے اور مخالفت کرتے ہیں۔

حال ہی میں ایک شخص نے دو روایات کے غلط تراجم اور دیگر احادیث سے چشم پوشی کرتے ہوئے سید علی خامنہ ای پر تنقید کی ہے کہ ان کا ہاتھ شل ہے تو ان کے پیچھے نماز کیسے پڑھی جائے گی۔

انہوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے؛

💥وَ قَالَ الصَّادِقُ ع لَا يَؤُمُّ صَاحِبُ الْقَيْدِ الْمُطْلَقِينَ وَ لَا يَؤُمُّ صَاحِبُ الْفَالِجِ الْأَصِحَّاء


امام صادق(ع): "قیدی آزاد لوگوں کی امامت نہ کرے اور فالج زدہ صحیح و سالم لوگوں کی امامت نہ کرائے۔"

💥من لا یحضرہ الفقیہ: ج1 ح1107


نیز یہ حدیث بھی ان لوگوں نے نقل کی؛

💥عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ص لَا يَؤُمُّ الْمُقَيَّدُ الْمُطْلَقِينَ وَ لَا يَؤُمُّ صَاحِبُ الْفَالِجِ الْأَصِحَّاءَ وَ لَا صَاحِبُ التَّيَمُّمِ الْمُتَوَضِّينَ وَ لَا يَؤُمُّ الْأَعْمَى فِي الصَّحْرَاءِ إِلَّا أَنْ يُوَجَّهَ إِلَى الْقِبْلَة

امام صادق(ع) سے منقول ہے کہ امام علی(ع) نے فرمایا: "قیدی زاداد لوگوں کو، کوئی فالج کا مریض تندرست لوگوں کو اور کوئی تیمّم والا باوضو لوگوں کو، اور اندھا بیابان میں جماعت نہ کرائے مگر یہ کہ اس کو قبلہ رخ کر دیا جائے۔"

💥کافی: ج3 ص376

ان احادیث کے مصداق پر مدلّل گفتگو کرنے سے پہلے ہم ان کی ہیرا پھیری کی طرف اشارہ کرنا چاھیں گے۔ انہوں نے ترجمہ میں لفظ "مفلوج" کا استعمال کیا ہے، عربی کے مطابق تو اس میں حرج نہیں کیونکہ عربی میں "مفلوج" فالج زدہ کو ہی کہا جاتا ہے۔ لیکن اردو میں یہ لفظ کسی معذور کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے جبکہ وہ شخص فالج کا شکار نہ بھی ہو۔ اگر حدیث کا اصل مصداق دیکھیں تو یہ کسی فالج زدہ شخص کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع کر رہا ہے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ فالج زدہ شخص افعال نماز ادا کرنے پر قادر نہیں ہوتا۔ نہ سجود میں ساتوں اعضائے سجدہ کو زمین پر رکھ سکتا ہے اور نہ رکوع کر سکتا ہے۔

حدیث میں "صاحب الفالج" کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا لغوی مطلب کوئی ایسا شخص ہے جو فالج کا مریض ہو۔ فالج کا اٹیک کبھی مکمّل جسم پر ہوتا ہے اور کبھی آدھے جسم پر۔ ان مدلّسین نے بہت خوبصورتی سے "صاحب الفالج" کی جگہ پر "مفلوج" کا لفط استعمال کیا ہے اور لفظ مفلوج کو معذور کے مترادف پیش کیا ہے جبکہ "معذور" "مفلوج" کا مترادف ہرگز نہیں ہے۔

اب یہاں پر لفظ "مفلوج" استعمال کر کے آیت اللہ خامنہ ای پر اٹیک کیا جا رہا ہے جبکہ دنیا جانتی ہے کہ آیت اللہ خامنہ ای فالج کا شکار نہیں ہیں۔ ان کا ہاتھ ایک بم دھماکے میں تھوڑا شل ہوا، لیکن اس کے باوجود بھی آپ مکمّل طور پر نماز پڑھ سکتے ہیں۔ سجدہ میں تمام اعضائے سجدہ زمین پر رکھتے ہیں اور صحتمند شخص کی طرح رکوع بھی کرتے ہیں اور قنوت میں ہاتھ بھی اٹھاتے ہیں۔ البتہ اس بم دھماکے کی وجہ سے قنوت میں ہاتھ مکمّل نہیں اٹھا پاتے۔ یہیں سے اندازہ لگا لیں کہ یہ لوگ کسی کی مخالفت میں کس حد تک جا سکتے ہیں اور جھوٹ اور مکرو فریب سے کام لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

قیدی کے پیچھے نماز پڑھنے کے متعلق بھی علماء نے یہی کہا ہے کہ اس سے مراد وہ قیدی ہے جو زنجیروں میں جکڑا ہو جس کی وجہ سے وہ درست انداز میں نماز کے افعال انجام نہ دے سکے۔

اب ہم ان احادیث کے متن کی طرف آتے ہیں۔ بظاہر اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ چند لوگوں کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔

1) قیدی
2) فالج زدہ شخص
3) کسی عذر کی وجہ سے تیمّم کرنے والا
4) اندھا

لیکن ہم دیگر احادیث میں دیکھتے ہیں کہ ان مخصوص لوگوں کے پیچھے نماز پڑھنے کی اجازت بھی آئی ہے۔ مثلا قیدی یا غلام کے پیچھے نماز پڑھنے کی اجازت کے بارے میں درج ذیل احادیث ہیں؛

💥عَنْ زُرَارَةَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ: قُلْتُ لَه الصَّلَاةُ خَلْفَ الْعَبْدِ فَقَالَ لَا بَأْسَ بِهِ إِذَا كَانَ فَقِيهاً وَ لَمْ يَكُنْ هُنَاكَ أَفْقَهُ مِنْهُ الْحَدِيثَ.

زرارہ کہتے ہیں کہ میں نے امام باقر(ع) سے غلام کی اقتداء کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: جب وہ فقیہ ہو اور وہاں اس سے زیادہ بڑا کوئی فقیہ نہ ہو تو پھر جائز ہے۔

💥کافی: ج3 ص375

💥َعنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ أَحَدِهِمَا ع أَنَّهُ سُئِلَ عَنِ الْعَبْدِ يَؤُمُّ الْقَوْمَ إِذَا رَضُوا بِهِ وَ كَانَ أَكْثَرَهُمْ قُرْآناً قَالَ لَا بَأْسَ بِهِ 
محمد بن مسلم نے امام باقر یا امام صادق(ع) میں سے کسی سے پوچھا کہ آیا غلام لوگوں کو نماز پڑھا سکتا ہے، تو آپ نے فرمایا کہ کوئی مضائقہ نہیں۔

💥تہذیب الاحکام: ج3 ص29


پس ان روایات میں جواز بیان ہوا ہے، اور جو حدیث ان مدلّسین نے بیان کی ہے اس میں غلام یا قیدی کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع کرنے کو کراہت پر حمل کریں گے یعنی ان کے پیچھے نماز جائز تو ہے لیکن مکروہ ہے۔ یا ہم یوں کہیں گے کہ ان قیدیوں کے پیچھے نماز پڑھنی منع ہے جو زنجیر یا رسّی میں بندھے ہوں جس کی وجہ سے وہ افعال نماز انجام دینے پر قادر نہ ہوں۔

اب ہم تیمّم کرنے والے شخص کے پیچھے امامت پر بات کرتے ہیں۔ مدلّسین کی پیش کردہ روایت کے مطابق تیمّم کرنے والے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا حرام ہے، اور یہی ان کا مطلب ہے، لیکن یہ سب احادیث سے نابلد ہونے کی وجہ سے ہے، یا وہ ان احادیث کے بارے میں جانتے ہیں لیکن عوام کو دھوکہ دینے کے لئے چھپاتے ہیں۔ ہم یہاں وہ احادیث پیش کرتے ہیں جن میں وضو کرنے والوں کا تیمّم کرنے والوں کے پیچھے نماز پڑھنے کا جواز ہے؛

💥عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُكَيْرٍ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع عَنْ رَجُلٍ أَجْنَبَ ثُمَّ تَيَمَّمَ فَأَمَّنَا وَ نَحْنُ طَهُورٌ فَقَالَ لَا بَأْسَ بِهِ

عبداللہ بکیر کہتےہیں کہ میں نے امام صادق(ع) سے ایسے شخص کے بارے میں پوچھا جو مجنب ہوا تھا لیکن (پانی نہ ملنے کی وجہ سے) تیمّم کیا اور پھر ہمیں نماز پڑھائی جبکہ ہم نے وضو کیا ہوا تھا۔ آپ(ع) نے فرمایا کوئی حرج نہیں۔

💥تہذیب الاحکام: ج3 ص167


💥عَنْ أَبِي أُسَامَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع فِي الرَّجُلِ يُجْنِبُ وَ لَيْسَ مَعَهُ مَاءٌ وَ هُوَ إِمَامُ الْقَوْمِ قَالَ نَعَمْ يَتَيَمَّمُ وَ يَؤُمُّهُم


امام صادق(ع) سے پوچھا گیا اس شخص کے بارے میں جو ایک قوم کا پیشنماز ہے اور جنب ہو گیا، مگر اس کے پاس غسل کے لئے پانی نہیں۔ تو آپ(ع) نے فرمایا کہ وہ تیمّم کرے اور لوگوں کو نماز پڑھائے۔

💥تہذیب الاحکام: ج3 ص167


یہاں پر بھی یہ ثابت ہوا کہ وضو کرنے والوں کے لئے تیمّم کرنے والے کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے، مدلّسین کی پیش کردہ روایت میں جو منع آیا ہے ہم اس کو کراہت پر محمول کریں گے، یعنی یہ جائز تو ہے لیکن مکروہ ہے۔ اور علماء کرام نے بھی یہی فرمایا ہے جیسا کہ شیخ حر عاملی اپنی تالیف "وسائل الشیعہ" میں ان روایات کو نقل کیا اور اس باب کا نام رکھا: بَابُ جَوَازِ اقْتِدَاءِ الْمُتَوَضِّئِ بِالْمُتَيَمِّمِ عَلَى كَرَاهِيَة ۔۔۔۔۔ یعنی وضو والوں کا تیمّم والوں کے پیچھے نماز کراہت کے ساتھ پڑھنے کا باب

اب ہم اندھے کے پیچھے نماز پڑھنے کی طرف آتے ہیں۔

💥امام صادق(ع): اگر اندھا آدمی لوگون کو نماز پڑھائے تومضائقہ نہیں ہے، اگرچہ یہی مقتدی اسے قبلہ رخ کریں۔ (تہذیب الاحکام)

💥امام باقر و امام صادق(ع): جب مقتدی اندھے آدمی کو پسند کریں اور وہ ان سے زیادہ قاری اور فقیہ ہو تو وہ نماز باجماعت پڑھا سکتا ہے۔ (من لا یحضرہ الفقیہ)

پس یہاں پر بھی یہ ثابت ہوا کہ اندھے کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے، اور مدلّسین کی پیش کردہ روایت میں جو منع آیا ہے وہ کراہت کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی جائز ہے لیکن مکروہ ہے۔

پس مدلّسین کی پیش کردہ روایت میں قیدی، تیمّم والے، فالج زدہ اور اندھے کے پیچھے نماز پڑھنا منع نہیں ہے بشرطیکہ وہ نماز کے افعال کو درست انجام دے سکیں، بلکہ وہ روایات مکروہ ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ اسی لئے شیخ حر عاملی نے مدلّسین کی روایات پر باب باندھا ہے؛

💥بَابُ كَرَاهَةِ إِمَامَةِ الْمُقَيَّدِ الْمُطْلَقِينَ وَ صَاحِبِ الْفَالِجِ الْأَصِحَّاء

یعنی قیدی کا آزاد لوگوں کو اور فالج زدہ کا صحیح و سالم کو امامت کرانے میں کراہت کا باب۔

پس بالفرض ہم رہبر کبیر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سیّد علی خامنہ ای کو فالج زدہ بھی مان لیں تو بھی یہ احادیث مکروہ ہونے کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔

👈معصومین(ع) کے نام پر معصومین(ع) کے اقوال کو تروڑ مروڑ کر آدھی بات پیش کر کے مومنین کے دلوں میں شکوک پیدا کرنے والوں پر ہم لعنت بھیجتے ہیں۔

صحیح حدیث امام علی ع کے فضائل اور بارہ آئمہ ع کے نام صحیح حدیث میں

﷽ یہ دو صحیح الاسناد احادیث ہیں ایک امام علی ع کے فضائل بزبان نبی کریم ﷺ اور ایک بارہ آئمہ ع نام سمیت ایک ہی حدیث میں (جس پر بعض اہل سن...