﷽
یہ دو صحیح الاسناد احادیث ہیں ایک امام علی ع کے فضائل بزبان نبی کریم ﷺ اور ایک بارہ آئمہ ع نام سمیت ایک ہی حدیث میں (جس پر بعض اہل سنت اعتراض کرتے ہیں کہ آپکے پاس ایسی کوئی صحیح حدیث نہیں):
قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرَ مُحَّمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ قَالَ حَدَّثَنِي أََبِِي قَالَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى الْعَطَّارِ قَالَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ خَالِدٍ عَنِ أَبِي عَبْدِ اللهِ جَعْفَرَ بْنِ مُحَّمَّدِ الصَّادِقِ عَنْ آبَائِهِ ع قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص لِعَلِيٍّ ع يَا عَلِيُّ أَنْتَ مِنِّي وَ أَنَا مِنْكَ وَلِيُّكَ وَلِيِّي وَ وَلِيِّي وَلِيُّ اللَّهِ وَ عَدُوُّكَ عَدُوِّي وَ عَدُوِّي عَدُوُّ اللَّهِ يَا عَلِيُّ أَنَا حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبَكَ وَ سِلْمٌ لِمَنْ سَالَمَكَ يَا عَلِيُّ لَكَ كَنْزٌ فِي الْجَنَّةِ وَ أَنْتَ ذُو قَرْنَيْهَا يَا عَلِيُّ أَنْتَ قَسِيمُ الْجَنَّةِ وَ النَّارِ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ عَرَفَكَ وَ عَرَفْتَهُ وَ لَا يَدْخُلُ النَّارَ إِلَّا مَنْ أَنْكَرَكَ وَ أَنْكَرْتَهُ يَا عَلِيُّ أَنْتَ وَ الْأَئِمَّةُ مِنْ وُلْدِكَ عَلَى الْأَعْرَافِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تَعْرِفُ الْمُجْرِمِينَ بِسِيمَاهُمْ وَ الْمُؤْمِنِينَ بِعَلَامَاتِهِمْ يَا عَلِيُّ لَوْلَاكَ لَمْ يُعْرَفِ الْمُؤْمِنُونَ بَعْدِي
شیخ مفید نے کہا: ہم سے بیان کیا ابو جعفر محمد بن علی بن حسین (شیخ صدوق) نے، کہا مجھ سے بیان کیا میرے والد نے، کہا مجھ سے بیان کیا محمد بن یحیی عطار نے، کہا ہم سے بیان کیا احمد بن محمد بن عیسی نے جس نے علی بن حکم سے اور اس نے ہشام بن سالم سے جس نے سلیمان بن خالد سے جس نے ابو عبد اللہ جعفر بن محمد الصادق علیہ السلام سے روایت کی، انہوں نے اپنے ابا و اجداد سے روایت کی، فرمایا کہ رسول الله ﷺ نے علی علیہ السلام سے فرمایا: یا علی، آپ مجھ سے ہیں اور میں آپ سے ہیں اور آپکا دوست میرا دوست ہے، اور میرا دوست الله ﷻ کا دوست ہے، اور آپکا دشمن میرا دشمن ہے اور میرا دشمن الله ﷻ کا دشمن ہے۔ یا علی، میں اس سے حالت جنگ میں ہوں جو آپ سے جنگ کرے اور اس سے سلامتی میں ہوں جو آپ سے سلامتی میں ہے۔ یا علی، آپ کیلئے جنت میں خزانہ ہے اور آپکے پاس اسکے دونوں حصے ہیں۔ یا علی، آپ جنت و جہنم کو تقسیم کرنے والے ہیں، کوئی جنت میں داخل نہیں ہوگا مگر وہ جو آپکو پہچانے اور آپ اسکو پہچانتے ہوں، اور کوئی جہنم میں داخل نہیں ہوگا مگر وہ جو آپکا انکار کرے اور آپ اسکا انکار کرتے ہوں۔ یا علی، آپ اور آپکی اولاد سے آئمہ اعراف پر ہونگے قیامت کے دن اور آپ مجرموں کو انکے نشانوں سے پہچان لیں گے اور مومنین کو انکی علامات سے۔ یا علی، اگر آپ نہ ہوتے تو مومنین میرے بعد نہ پہچانے جاتے۔ (1)
سند بہترین ہے، تمام راوی ثقہ ہیں سند میں اور اپنے زمانے کے معروف چہرے ہیں۔
شیخ نمازی شاھرودی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔ (مستدركات علم الرجال، ج 4، ص 129
شیخ نمازی شاھرودی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔ (مستدركات علم الرجال، ج 4، ص 129
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْبَرْقِيِّ عَنْ أَبِي هَاشِمٍ دَاوُدَ بْنِ الْقَاسِمِ الْجَعْفَرِيِّ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الثَّانِي (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ أَقْبَلَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) وَمَعَهُ الْحَسَنُ بن علي (عَلَيْهما السَّلام) وَهُوَ مُتَّكِىٌ عَلَى يَدِ سَلْمَانَ فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ فَجَلَسَ إِذْ أَقْبَلَ رَجُلٌ حَسَنُ الْهَيْئَةِ وَاللِّبَاسِ فَسَلَّمَ عَلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ فَرَدَّ عَلَيْهِ السَّلامَ فَجَلَسَ ثُمَّ قَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَسْأَلُكَ عَنْ ثَلاثِ مَسَائِلَ إِنْ أَخْبَرْتَنِي بِهِنَّ عَلِمْتُ أَنَّ الْقَوْمَ رَكِبُوا مِنْ أَمْرِكَ مَا قُضِيَ عَلَيْهِمْ وَأَنْ لَيْسُوا بِمَأْمُونِينَ فِي دُنْيَاهُمْ وَآخِرَتِهِمْ وَإِنْ تَكُنِ الاخْرَى عَلِمْتُ أَنَّكَ وَهُمْ شَرَعٌ سَوَاءٌ فَقَالَ لَهُ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) سَلْنِي عَمَّا بَدَا لَكَ قَالَ أَخْبِرْنِي عَنِ الرَّجُلِ إِذَا نَامَ أَيْنَ تَذْهَبُ رُوحُهُ وَعَنِ الرَّجُلِ كَيْفَ يَذْكُرُ وَيَنْسَى وَعَنِ الرَّجُلِ كَيْفَ يُشْبِهُ وَلَدُهُ الاعْمَامَ وَالاخْوَالَ فَالْتَفَتَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) إِلَى الْحَسَنِ فَقَالَ يَا أَبَا مُحَمَّدٍ أَجِبْهُ قَالَ فَأَجَابَهُ الْحَسَنُ (عَلَيْهِ السَّلام) فَقَالَ الرَّجُلُ أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا الله وَلَمْ أَزَلْ أَشْهَدُ بِهَا وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ الله وَلَمْ أَزَلْ أَشْهَدُ بِذَلِكَ وَأَشْهَدُ أَنَّكَ وَصِيُّ رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) وَالْقَائِمُ بِحُجَّتِهِ وَأَشَارَ إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ وَلَمْ أَزَلْ أَشْهَدُ بِهَا وَأَشْهَدُ أَنَّكَ وَصِيُّهُ وَالْقَائِمُ بِحُجَّتِهِ وَأَشَارَ إِلَى الْحَسَنِ (عَلَيْهِ السَّلام) وَأَشْهَدُ أَنَّ الْحُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ وَصِيُّ أَخِيهِ وَالْقَائِمُ بِحُجَّتِهِ بَعْدَهُ وَأَشْهَدُ عَلَى عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ أَنَّهُ الْقَائِمُ بِأَمْرِ الْحُسَيْنِ بَعْدَهُ وَأَشْهَدُ عَلَى مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ أَنَّهُ الْقَائِمُ بِأَمْرِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ وَأَشْهَدُ عَلَى جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ بِأَنَّهُ الْقَائِمُ بِأَمْرِ مُحَمَّدٍ وَأَشْهَدُ عَلَى مُوسَى أَنَّهُ الْقَائِمُ بِأَمْرِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ وَأَشْهَدُ عَلَى عَلِيِّ بْنِ مُوسَى أَنَّهُ الْقَائِمُ بِأَمْرِ مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ وَأَشْهَدُ عَلَى مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ أَنَّهُ الْقَائِمُ بِأَمْرِ عَلِيِّ بْنِ مُوسَى وَأَشْهَدُ عَلَى عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ بِأَنَّهُ الْقَائِمُ بِأَمْرِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ وَأَشْهَدُ عَلَى الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ بِأَنَّهُ الْقَائِمُ بِأَمْرِ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ وَأَشْهَدُ عَلَى رَجُلٍ مِنْ وُلْدِ الْحَسَنِ لا يُكَنَّى وَلا يُسَمَّى حَتَّى يَظْهَرَ أَمْرُهُ فَيَمْلاهَا عَدْلاً كَمَا مُلِئَتْ جَوْراً وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ وَرَحْمَةُ الله وَبَرَكَاتُهُ ثُمَّ قَامَ فَمَضَى فَقَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ يَا أَبَا مُحَمَّدٍ اتْبَعْهُ فَانْظُرْ أَيْنَ يَقْصِدُ فَخَرَجَ الْحَسَنُ بن علي (عَلَيْهما السَّلام) فَقَالَ مَا كَانَ إِلا أَنْ وَضَعَ رِجْلَهُ خَارِجاً مِنَ الْمَسْجِدِ فَمَا دَرَيْتُ أَيْنَ أَخَذَ مِنْ أَرْضِ الله فَرَجَعْتُ إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) فَأَعْلَمْتُهُ فَقَالَ يَا أَبَا مُحَمَّدٍ أَ تَعْرِفُهُ قُلْتُ الله وَرَسُولُهُ وَأَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ أَعْلَمُ قَالَ هُوَ الْخَضِرُ (عَلَيْهِ السَّلام).
ہمارے کچھ اصحاب سے، جنہوں نے احمد بن محمد برقی سے جس نے ابی ہاشم داود بن قاسم جعفری سے جس نے ابو جعفر ثانی (امام تقی) علیہ السلام سے روایت کی، فرمایا کہ امیر المومنین آئے اور انکے ساتھ حسن بن علی ع تھے اور وہ سلمان کے ہاتھ کا سہارا لیئے ہوئے تھے، تو وہ مسجد حرام میں داخل ہوئے اور بیٹھے کہ ایک خوبصورت بندہ آیا اچھے لباس والا اور امیر المومنین ع کو سلام کیا، انہوں نے سلام کا جواب دیا تو وہ بیٹھ گیا۔ پھر کہا: یا امیر المومنین میں آپ سے تین مسائل کے بارے میں پوچھوں گا، اگر آپ نے مجھے وہ بتا دیئے تو میں جان جاؤں گا کہ جن لوگوں نے آپکے امر (خلافت) کو غصب کیا ہے انہوں نے اپنے خلاف ہی فیصلہ کیا ہے۔ اور وہ اپنی دنیا و آخرت میں سلامت نہیں۔ اور اگر دوسری بات ہوئی (جواب نہ دے سکے) تو میں جان جاؤں گا کہ آپ اور وہ برابر ہیں۔ امیر المومنین علیہ السلام نے اسکو کہا: مجھ سے سوال کر اسکے بابت جو تیرے لیئے ظاہر ہوا ہے۔ اس نے کہا: مجھے بتایئے کہ جب کوئی شخص سوتا ہے اسکی روح کہاں جاتی ہے؟ اور اس شخص کے بابت کہ وہ کیسے یاد کرتا ہے اور بھولتا ہے؟ اور اس شخص کے متعلق کہ کیسے اسکی اولاد اسکے چچاؤں اور خالاوں سے مشابہ ہوتی ہے؟ امیر المومنین علیہ السلام امام حسن علیہ السلام کی جانب مڑے اور فرمایا: اے ابا محمد! اسکو جواب دو۔ کہا کہ پھر امام حسن علیہ السلام نے اسکو جواب دیا (سوالات کا)۔ اس شخص نے کہا: میں گوائی دیتا ہوں کہ کوئی خدا نہیں سوائے الله ﷻ کے اور میں یہ گواہی دینے سے نہیں رکوں گا، اور کہ محمد ﷺ الله ﷻ کے رسول ہیں، اور میں یہ گواہی دینے سے نہیں رکوں گا، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ رسول الله ﷺ کے وصی ہیں اور انکی حجت کے ساتھ قائم ہیں اور میں یہ گواہی دینے سے نہیں رکوں گا، اور اس شخص نے امیر المومنین کی طرف اشارہ کیا، (اور کہا) میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ انکے وصی ہیں اور انکی حجت کے ساتھ قائم ہیں اور امام حسن علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا، اور (کہا) میں گواہی دیتا ہوں کہ حسین بن علی اپنے بھائی کے وصی ہیں اور انکے بعد انکی حجت سے قائم ہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ علی بن حسین (زین العابدین) قائم ہیں حسین علیہ السلام کے امر کے ساتھ انکے بعد اور میں گواہی دیتا ہوں اس پر کہ محمد بن علی (الباقر) علیہما السلام قائم ہیں امر کے ساتھ علی بن حسین علیہ السلام کے، اور میں گواہی دیتا ہوں اس پر کہ جعفر بن محمد (الصادق) علیہما السلام قائم ہیں محمد (الباقر) علیہ السلام کے امر کے ساتھ اور میں گواہی دیتا ہوں اس پر کہ موسی (الکاظم) علیہ السلام قائم ہیں جعفر بن محمد علیہما السلام کے امر کے ساتھ اور میں اس پر گواہی دیتا ہوں کہ علی بن موسی (الرضا) علیہما السلام قائم ہیں موسی بن جعفر علیہما السلام کے امر سے اور میں گواہی دیتا ہوں اس پر کہ محمد بن علی (التقي) علیہما السلام قائم ہیں علی بن موسی علیہما السلام کے امر سے اور میں گواہی دیتا ہوں علی بن محمد (النقي) علیہما السلام پر کہ وہ قائم ہیں محمد بن علی علیہما السلام کے امر سے اور میں گواہی دیتا ہوں حسن بن علی (العسكري) پر کہ وہ قائم ہیں علی بن محمد کے امر سے اور میں گواہی دیتا ہوں ایک شخص پر اولاد حسن علیہ السلام سے جسکی نہ کنیت لی جائے گی نہ نام، حتی کہ اسکا امر ظاہر ہوگا تو وہ زمین کو عدل سے بھر دے گا جیسے وہ ظلم و جور سے بھری ہوگی، اور سلام ہو آپ پر یا امیر المومنین اور الله ﷻ کی رحمت اور اسکی برکات، پھر وہ شخص کھڑا ہوا اور چلا گیا۔ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا: اے ابا محمد! اسکے پیچھے جاؤ اور دیکھو وہ کہاں گیا ہے۔ حسن بن علی علیہما السلام نکلے اور (واپس آکر) فرمایا: میں نے جیسے ہی اپنا قدم مسجد کے باہر رکھا مجھے سمجھ نہیں آئی کہ الله ﷻ کی زمین سے وہ بندہ کہاں چلا گیا، تو میں امیر المومنین علیہ السلام کے پاس لوٹا اور انکو وہ بتا دیا۔ انہوں نے فرمایا: اے ابا محمد! کیا تم اسکو جانتے ہو؟ میں نے کہا: الله ﷻ اور اسکا رسول ﷺ اور امیر المومنین علیہ السلام بہتر جانتے ہیں۔ امام ع نے فرمایا: وہ حضرت خضر علیہ السلام تھے۔ (2)
علامہ مجلسی: حدیث صحیح ہے۔ (مرآة العقول / 6 / 203)
أحقر: سيد علي أصدق نقوي
اللهم صل على محمد ﷺ وآله
اللهم صل على محمد ﷺ وآله
مآخذ:
(1) الأمالي للمفيد، ص 213
(2) الكافي، ج 1، ص 525 و 526
(2) الكافي، ج 1، ص 525 و 526