شیعہ اثنا عشری کا عقیدہ توحیدجان لیجئے کہ توحید کے بارے ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ واحد و یکتا ہے ۔ کوئی چیز اس کے مثل و مانند نہیں۔ ہمشیہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا ۔ سنتا ہے ( ہر آواز کا علم رکھتا ہے ) دیکھتا ہے ( ہر دکھائی دینے والی چیز کا علم رکھتا ہے) ہر چیز سے باخبر ہے ۔ وہ ایسی ذات ہے کہ کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہے ۔ زندہ ہے اور زوال نہیں ہے غالب ہے منزہ ہے سب چیزوں کا علم رکھتا ہے۔ ہر شے پر قدرت رکھتا ہے ۔ بے نیاز ہے ۔ اس کی ذات ایسی ہے کہ اسے جوہر ، عرض ، صورت ، خط ، سطح ،ثقل ، خفت ، حرکت ، سکون ، مکان اور زمان ۔ جیسی صفات سے متصف نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ سب مادی ( یعنی مادی مخلوق کی ) صفات ہیں اور وہ اپنی مخلوقات کی تمام صفات سے منزہ اور مبریٰ ہے ۔ نہ ہی وہ ایسی ذات ہے ہے جس سے فضل و کمال کی نفی کی جائے اور نہ ہی اس کے کمال کو مخلوق کے کسی کمال سے مشابہ قرار دیا جا سکتا ہے ۔ وہ موجود ہے لیکن دیگر موجودات کی طرح نہیں ہے وہ یکتا ہے بے نیاز ہے ۔ نہ اس سے کوئی پیدا ہوا کہ جسے وارث بنایا جائے اور نہ وہ خود کسی سے پیدا ہوا کہ اس کی صفات یا ذات میں شریک قرار پائے۔ اس کا کوئی ہم سر نہیں ۔ اس کی کوئی نظیر نہیں ہے ۔ کوئی ضد نہیں ہے ۔ کوئی شبیہ نہیں ہے۔ کوئی شریک حیات نہیں ہے ۔ کوئی مثل و نظیر نہیں ہے اور نہ ہی اس کا کوئی مشیرکار ہے ۔ وہ ایسا لطیف و خبیر ہے کہ آنکھیں اسے نہیں دیکھ سکتیں ، وہ آنکھوں کے خیال کا احاطہ رکھتا ہے۔ اسے اونگھ آتی ہے نہ نہ نیند ۔ ہر چیز کا وہی خالق ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ خلق اور حکمرانی کرنا اسی کاحق ہے۔ بابرکت ہے وہ ذات جو تمام جہانوں کا رب ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ کو مخلوق جیسا سمجھے وہ مشرک ہے اور جو شخص توحید کے باب میں سابق الذکر عقیدے کے علاوہ کسی عقیدے کو شیعوں کی طرف منسوب کرے، وہ جھوٹا ہے
ہر وہ حدیث جو کتاب خدا کے مطابق نہ ہو ، وہ باطل ہے اور اگر اس قسم کی حدیث ہمارے علماء کی کتابوں میں پائی جاے تو وہ مدلسس ہو گی جن روایات سے جاہلوں کو یہ خیال ہوتا ہے کہ ان میں خدا کو مخلوق سے تشبیہ دی گئ ہے تو ان کے معانی بھی وہی مراد لیے جائیں گے جو اس قسم کی قرآنی آیات کے سلسلے میں لیے جاتے ہیں
چناچہ آیت قرآنی ہے۔
"ہر چیز فنا ہونے والی ہے سواے اس کی زات کے "
القصص 88
اس آیت میں وجہ سے مراد دین اسلام ہے جس سے اللہ تعالی تک رسائی حاصل ہوتی ہے اور خدا کی طرف توجہ کی جاتی ہے اسی طرح ایک اور آیت شریفہ ہے
"جس دن مشکل ترین لمحہ آےگا اور انہیں سجدے کے لیے بلایا جاے گا تو یہ لوگ سجدہ نہ کر سکیں گے "
القلم 42
(اگر یہاں کشف ساقی سے مراد پنڈلی کھولنا مراد لیاجاے جیسا کہ عامہ کا نظریہ ہے تو اللہ کی نسبت تشبیہ اور تجسم کے باطل عقیدے کا تسلیم و اقرار لازم آے گا)
پسکشف ساقی سے مراد قیامت کی ہولناکی؛شدت اور سختی کا نمایاں ہونا ہے ۔ ایک اور مقام پر قرآن مجید میں آیا ہے
"اور اس میں اپنی روح پھونک دی "
الحجر 29یعنی حضرت آدم اور حضرت عیسی علیہ السلام کے بدن میں روح ڈال دی ہے اور اللہ تعالی کا یہ فرمان ۔ روحی میری روح ۔بالکل اسی طرح ہے جس طرح خود اللہ تعالی نے دیگر موارد میں فرمایا ہے ۔ بیتی میرا گھر ۔ عبدی میرا بندہ ۔۔ جنتی میری جنت ۔۔ناری میری دوزخ ۔۔سمانی میرا آسمان اور اراضی میری زمین ۔۔یعنی یہاں روحی سے مراد میری مخلوق ہے اور قرآن میں ہے
اللہ کے تو دونوں ہاتھ کھلے ہوے ہیں "
المائدہ 64
یہاں ید سے مراد نعمت اور یداہ سے مراد دنیا و آخرت کی نعمت ہے ایک اور مقام پر فرمایا
"اور آسمان کو ہم نے اپنی قوت سے بنایا"
الداریات 47
اید۔ ید ہاتھ کی جمع ہے جس سے مراد اللہ کی قوت و طاقت ہے اس مطلب کی تائید اس آیت سے بھی ہوتی ہے
"اور (ان سے) ہمارے بندے داؤد کا قصہ بیان کیجیے جو طاقت کا مالک تھے"
ص 17
جن روایات پر مخالفین اور بےدین افراد کے حملے ہوتے ہیں ان میں اسی قسم کے الفاظ وارد ہوے ہیں لہذا ان لفظوں کے وہی معنی مراد لینے چاہیے جو قرآن میں ان کے معانی مراد لیے گے ہیں
اعتقادات شیخ صدوق رحمۃ اللہ علیہ ص 15-16
ہر وہ حدیث جو کتاب خدا کے مطابق نہ ہو ، وہ باطل ہے اور اگر اس قسم کی حدیث ہمارے علماء کی کتابوں میں پائی جاے تو وہ مدلسس ہو گی جن روایات سے جاہلوں کو یہ خیال ہوتا ہے کہ ان میں خدا کو مخلوق سے تشبیہ دی گئ ہے تو ان کے معانی بھی وہی مراد لیے جائیں گے جو اس قسم کی قرآنی آیات کے سلسلے میں لیے جاتے ہیں
چناچہ آیت قرآنی ہے۔
"ہر چیز فنا ہونے والی ہے سواے اس کی زات کے "
القصص 88
اس آیت میں وجہ سے مراد دین اسلام ہے جس سے اللہ تعالی تک رسائی حاصل ہوتی ہے اور خدا کی طرف توجہ کی جاتی ہے اسی طرح ایک اور آیت شریفہ ہے
"جس دن مشکل ترین لمحہ آےگا اور انہیں سجدے کے لیے بلایا جاے گا تو یہ لوگ سجدہ نہ کر سکیں گے "
القلم 42
(اگر یہاں کشف ساقی سے مراد پنڈلی کھولنا مراد لیاجاے جیسا کہ عامہ کا نظریہ ہے تو اللہ کی نسبت تشبیہ اور تجسم کے باطل عقیدے کا تسلیم و اقرار لازم آے گا)
پسکشف ساقی سے مراد قیامت کی ہولناکی؛شدت اور سختی کا نمایاں ہونا ہے ۔ ایک اور مقام پر قرآن مجید میں آیا ہے
"اور اس میں اپنی روح پھونک دی "
الحجر 29یعنی حضرت آدم اور حضرت عیسی علیہ السلام کے بدن میں روح ڈال دی ہے اور اللہ تعالی کا یہ فرمان ۔ روحی میری روح ۔بالکل اسی طرح ہے جس طرح خود اللہ تعالی نے دیگر موارد میں فرمایا ہے ۔ بیتی میرا گھر ۔ عبدی میرا بندہ ۔۔ جنتی میری جنت ۔۔ناری میری دوزخ ۔۔سمانی میرا آسمان اور اراضی میری زمین ۔۔یعنی یہاں روحی سے مراد میری مخلوق ہے اور قرآن میں ہے
اللہ کے تو دونوں ہاتھ کھلے ہوے ہیں "
المائدہ 64
یہاں ید سے مراد نعمت اور یداہ سے مراد دنیا و آخرت کی نعمت ہے ایک اور مقام پر فرمایا
"اور آسمان کو ہم نے اپنی قوت سے بنایا"
الداریات 47
اید۔ ید ہاتھ کی جمع ہے جس سے مراد اللہ کی قوت و طاقت ہے اس مطلب کی تائید اس آیت سے بھی ہوتی ہے
"اور (ان سے) ہمارے بندے داؤد کا قصہ بیان کیجیے جو طاقت کا مالک تھے"
ص 17
جن روایات پر مخالفین اور بےدین افراد کے حملے ہوتے ہیں ان میں اسی قسم کے الفاظ وارد ہوے ہیں لہذا ان لفظوں کے وہی معنی مراد لینے چاہیے جو قرآن میں ان کے معانی مراد لیے گے ہیں
اعتقادات شیخ صدوق رحمۃ اللہ علیہ ص 15-16
No comments:
Post a Comment