السلام و علیکم
سب سے پہلے تمام مسلمانوں کو وفات ابو طالب علیہ السلام کے موقع پر تعزیت پیش کرتے ہیں
تمام مسلمانوں خصوصا شیعان حیدر کرار ع سے گزارش ہے کہ اس تحریر کو مکمل پڑھے اور زیادہ سے زیادہ شئیر کرے
💥یہ مضمون پڑھ کر آپ کو اندازہ ہو گا کہ بنی امیہ کے ناصبی کس طرح اہلسنت سلف علماء کی صفوں میں گھس بیٹھے تھے اور کیسے بنی امیہ کی ٹکسالوں سے گھڑی گئی روایتیں اہلسنت کتب حدیث میں آ موجود ہوئیں۔ بنی امیہ کے ناصبیوں کا ایک بڑا ہدف حضرت ابو طالب علیہ السلام تھے اور انہوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا کہ کسی طرح انہیں کافر ثابت کریں۔آئیے ان جھوٹی گھڑی ہوئی روایات کے تضادات کو دیکھیں تاکہ باطل آشکار ہو سکے۔ امین۔
💥سعید ابن مسیب کی روایت:
سب سے پہلے مخالفین جناب ابو طالب کا (معاذ اللہ) کفر ثابت کرنے کے لیے یہ روایت استعمال کرتے ہیں:
صحیح بخاری، کتاب التفسیر
زہری نے سعید بن مسیب سے اور انہوں نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ ابو طالب جب قریب الموت ہوئے تو رسول ﷲ (ص) ان کے پاس تشریف لائے جب کہ ابوجہل اور عبداللہ بن امیّہ وہاں موجود تھے۔ آپ نے فرمایا اے چچا کلمہ طیبہ لا الہٰ الا اﷲ پڑ ھ لیں تاکہ میں اس کے ذریعے آپ کا دفاع کروں گا۔ ابوجہل اور عبداللہ بن امیہ نے کہا: اے ابوطالب ! کیا عبدالمطلب کے دین سے پھر جاؤ گے؟ وہ دونوں مسلسل ابوطالب سے یہی بات کہتے رہے ، یہاں تک کہ ابوطالب نے جو آخری بات انہیں کہی وہ یہ تھی کہ میں عبدالمطلب کے دین پر قائم ہوں۔ تو نبی کریم (ص) نے فرمایا کہ جب تک مجھے منع نہ کردیا گیا میں آپ کے لیے استغفار کرتا رہوں گا۔ چنانچہ اس پر یہ آیت نازل ہوئی:
(القرآن 9:113)نبی (ص) اور ایمان والوں کی شان کے لائق نہیں کہ مشرکوں کے لئے دعائے مغفرت کریں اگرچہ وہ قرابت دار ہی ہوں اس کے بعد کہ ان کے لئے واضح ہو چکا کہ وہ (مشرکین) اہلِ جہنم ہیں
اور پھر خاص یہ آیت ابو طالب کے لیے نازل ہوئی ۔
(القرآن 28:56) بلاشُبہ تم (اے نبی) نہیں ہدایت دے سکتے جسے چاہو لیکن اللہ ہدایت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور وہ خوب جانتا ہے ہدایت پانے والوں کو۔
بہت سی روایات بنی امیہ نے جھوٹی گھڑ کر کتب حدیث میں داخل کر دی ہیں۔ اگر تدبر اور تفکر سے کام لیں تو آپ کو یہ جھوٹ گھڑی ہوئی روایات نظر آ سکتی ہیں۔
💥سعید ابن مسیب کی یہ روایت تدلیس شدہ ہے:
1۔ یہ روایت سعید نے اپنے والد مسیب ابن حزن سے روایت کی ہے۔
مسیب اپنے باپ حزن کے ساتھ "فتح مکہ" کے بعد مسلمان ہوئے۔ جب حزن مسلمان ہوئے تو رسول اکرم (ص) نے ان سے اپنا نام بدلنے کو کہا تو انہوں نے انکار کر دیا۔ اور اس وقت مسیب بہت کم سن تھے۔ سعید بن المسیب یہ بذات خود حضرت عمر کے مرنے کے 2 سال بعد پیدا ہوئے تھے، یعنی 24 یا 25 ہجری میں۔
اس طرح یہ ناممکن ہے کہ انہوں نے یا انکے والد نے حضرت ابو طالب کو بستر مرگ پر دیکھا ہو کیونکہ یہ اسکے دس گیارہ سال بعد اسلام لا رہے ہیں۔ اس روایت میں تدلیس ہے کیونکہ اصل عینی گواہ کا کچھ علم نہیں ہے۔
علامہ شبلی نعمانی اپنی کتاب سیرۃ النبی میں ابن مسیب کی اس روایت کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:
مگر محدثانہ نقطہ نظر سے بخاری کی اس روایت کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ اس پر یقین کیا جائے کیونکہ اسکا آخری راوی المسیب فتح مکہ کے بعد اسلام لایا تھا۔ چنانچہ وہ ابو طالب کی وفات کے وقت موجود ہی نہ تھا۔ اسی وجہ سے علامہ عینی نے صحیح بخاری کی شرح میں اس روایت کو "مرسل" لکھا ہے۔
2۔ اور یہ روایت ابو ہریرہ سے بھی مروی ہے، مگر یہ بھی بنی امیہ کی جھوٹی گھڑی ہوئی روایت ہے۔
ابو ہریرہ ایمان لائے ہیں مدینے میں رسول اللہ (ص) کی وفات سے فقط ڈھائی یا تین سال پہلے۔۔۔۔۔ جبکہ جناب ابو طالب کا انتقال ہوا تھا مکی زندگی میں۔ چنانچہ ابو ہریرہ بھی دس گیارہ سال بعد مسلمان ہو کر مدینے آتے ہیں۔ چنانچہ یہ روایت بھی تدلیس شدہ ہے یا پھر ابو ہریرہ قیاس کی بنیاد پر بذاتِ خود اس آیت کو ابو طالب کی وفات سے جوڑ رہے ہیں۔
سورۃ براۃ (توبہ) کی یہ آیت وفات ابو طالب کے دس گیارہ سال بعد مدینہ میں نازل ہوئی
💥جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ اور جھوٹ بولنے کے لیے عقل کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
جس شخص نے یہ بھی یہ جھوٹی روایت گھڑی ہے، اسکے جھوٹ کا پردہ اللہ تعالی نے یوں فاش کیا ہے کہ اس روایت میں دعوی کیا گیا ہے کہ سورۃ براۃ کی آیت (9:113) ابو طالب کی وفات کے وقت نازل ہوئی۔
یہ ناممکنات میں سے ہے۔
سورۃ براۃ بالاتفاق جناب ابو طالب کی وفات کے کئی سالوں بعد مدینے میں نازل ہوئی ہے۔ اور اسکی گواہی ہر قرآنی تفسیر میں موجود ہے۔ مثال کے طور پر صحیح بخاری کی ہی دوسری روایت ہے:۔
البراء کہتے ہیں: آخری سورۃ جو نازل ہوا، وہ سورۃ براۃ تھی۔
💥حوالہ: صحیح بخاری، کتاب التفسیر
جتنی قرآنی تفاسیر ہیں، انہیں اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو یہی نظر آئے گا کہ سورۃ براۃ جناب ابو طالب کی وفات کے دس گیارہ سال بعد مدینہ میں نازل ہوئی ہے۔
چنانچہ سعید بن المسیب کی تدلیس شدہ روایت اس لحاظ سے بھی احمقانہ حد تک مضحکہ خیز ہے کہ رسول اللہ (ص) وفاتِ جناب ابو طالب کے دس گیارہ سال بعد تک مسلسل انکی مغفرت کی دعا کرتے رہے، اور صرف دس گیارہ سال کے بعد اللہ کو (معاذ اللہ) اسکی ممانعت کرنا یاد آیا۔
لاحول واللہ قوۃ۔
💥سعید ابن مسیب کی متعارض روایت کے مقابلے میں دوسرے اہلسنت صحیح روایات کی گواہی
نہ صرف یہ کہ سعید ابن مسیب کی اس روایت میں وقتِ نزول کے حوالے سے تضاد ہے، بلکہ دیگر اہلسنت صحیح روایات بھی اسکے خلاف گواہی دے رہی ہیں۔
پہلی روایت: علی ابن ابی طالب کی گواہی یہ آیت ابو طالب کے لیے نازل نہیں ہوئی
💥امام اہلسنت جلال الدین سیوطی تفسیر در منثور میں آیت 9:113 کی تفسیر کے ذیل میں لکھتے ہیں:
امام طیالسی، ابن ابی شیبہ، احمد، ترمذی، نسائی، ابو یعلی، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابو الشیخ، اور امام حاکم اور انہوں نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے، ابن مردویہ، بیہقی نے شعب الایمان (باب فی مباعدۃ الکفار و المفسدین) میں اور ضیاء نے المختارہ میں حضرت علی ابن ابی طالب کا یہ قول بیان کیا ہے کہ میں نے ایک آدمی کو سنا کہ وہ اپنے والدین کے لیے استغفار کر رہا تھا حالانکہ وہ دونوں مشرک تھے۔ تو میں نے کہا: کیا تو اپنے والدین کے لیے استغفار کر رہا ہے حالانکہ وہ دونوں مشرک ہیں؟ تو اس نے جواب دیا: کیا حضرت ابراہیم نے اپنے باپ (چچا) کے لیے استغفار نہیں کی تھی؟ سو میں نے اسکا ذکر حضور نبی (ص) سے کیا۔ تب یہ آیت نازل ہوئی۔
امام جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں:
امام حاکم نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔
اس روایت کے متعلق امام اہلسنت سید زینی دحلان لکھتے ہیں:۔
یہ حدیث صحیح ہے اور اسکے ثبوت میں ہمارے پاس ابن عباس کی ایک روایت موجود ہے جس کا مضمون یہ ہے:”لوگ اپنے باپ دادا کے لیے مغفرت کی دعا کرتے تھے۔ حتی کہ سورہ توبہ کی زیر بحث آیت 113 نازل ہوئی۔ اس کے بعد ان لوگوں نے اپنے مشرک مردگان کے لیے استغفار کرنا ترک کر دیا لیکن اپنے زندہ مشرک عزیزوں کے لیے انکی زندگی تک استغفار کرنا نہ چھوڑا۔ تب اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی:۔"اور ابراہیم کا اپنے چچا (آذر) کے لیے معافی کی دعا مانگنا ۔۔۔۔"
یعنی جب تک ابراہیم کے چچا (آذر) زندہ رہا، وہ اسکے لیے استغفار کرتے رہے، لیکن اس کے فوت ہو جانے کے بعد انہوں نے یہ عمل ترک کر دیا اور۔۔۔۔"
یہ ایک سچی گواہی ہے اور جب یہ سابق الذکر روایت کی تائید کر رہی ہے تو پھر اس کی صحت یقینی ہو جائے گی اور اس پر لازما عمل کرنا ہو گا۔ چنانچہ اس پہلی روایت کا واضح مطلب یہ ہے کہ آیت استغفار جس پر بحث ہو رہی ہے، وہ ابو طالب کے بارے میں نہیں بلکہ عام لوگوں کو اپنے مشرک اجداد کے لیے استغفار کی ممانعت کرنے کے لیے نازل ہوئی ہے۔
اور امام جلال الدین سیوطی تفسیر در منثور میں آیت 9:113 کے تحت پہلے عطیہ عوفی سے ابن عباس کی ایک روایت لاتے ہیں، اور پھر خود اسکا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ابن عباس کی یہ والی روایت صحیح ترین ہے جبکہ عطیہ عوفی والی ضعیف ہے۔ مکمل تحریر یوں ہے:
تفسیر در منثور، تفسیر آیت 9:113، علامہ جلال الدین سیوطی:
امام ابن جریر نے عطیہ العوفی کی سند سے ذکر کیا ہے ابن عباس نے اس آیت کی تفسیر میں کہا کہ رسول (ص) نے اپنے باپ (چچا) کی مغفرت کا ارادہ فرمایا تو اللہ نے اس سے منع کر دیا۔۔۔ میں (یعنی صاحب تفسیر) کہتا ہوں کہ یہ اثر ضعیف اور معلول ہے کیونکہ عطیہ ضعیف راوی ہے۔ اور یہ روایت علی بن ابی طلحہ عن ابی عباس والی سابقہ روایت کے خلاف ہے۔ وہ روایت اصح ہے اور علی بہت ثقہ راوی ہیں۔
المسیب کی تدلیس شدہ روایت کے مقابلے میں علی ابن ابی طالب وفاتِ ابو طالب کے وقت موجود تھے، ہر بات کے چشم دید گواہ تھے، اور آپ اسکے بھی چشم دید گواہ ہیں کہ یہ آیت کب اور کس شخص کے مشرک والدین کے لیے نازل ہوئی۔
اب یہ آپ کی چوائس ہے کہ آپ سعید ابن مسیب کی اس تدلیس شدہ روایت کو تسلیم کریں، یا پھر علی ابن ابی طالب جیسے جلیل القدر صحابی کی گواہی کو تسلیم کریں جو کہ ہر دو موقعوں(یعنی وفات ابو طالب اور اس آیت کے دوسرے موقع پر نازل ہونے) کے چشم دید گواہ ہیں اور مدینۃ العلم ہیں۔ ساتھ میں ابن عباس بھی ہیں کہ جن کو اہلسنت “امام المفسرین” کا خطاب دیتے ہیں۔
💥سعید ابن مسیب کی روایت میں مزید تضادات
اوپر جو کچھ ہو چکا ہے، وہ کافی ہے کہ سعید ابن مسیب کی تدلیس شدہ روایت کے مقابلے میں علی ابن ابی طالب کی اصح روایت کو قبول کیا جائے۔ مگر ریکارڈ کے لیے بیان ہے کہ سعید ابن مسیب کی اس روایت میں مزید کئی تضادات اور سقم ہیں۔ مثلا:
1۔ علی ابن ابی طالب سے ہی ایک جھوٹی روایت منسوب کر دی گئی کہ آیت 9:113 وفاتِ ابو طالب کے کچھ دن بعد نازل ہوئی۔
یہ روایت الٹا جا کر مخالفین کے ہی گلے پڑ گئی کہ علی ابن ابی طالب کیسے ایک ہی آیت کے نزول کے دو وقت بیان کر سکتے ہیں۔ چنانچہ ثابت ہوا کہ ان میں سے صرف ایک درست ہے جبکہ دوسرا علی ابن ابی طالب پر گھڑا ہوا جھوٹ ہے۔
یہ بالکل ویسا ہی ہے کہ جس کا ذکر امام اہلسنت جلال الدین سیوطی نے اوپر کیا ہے کہ ابن عباس سے اوپر علی ابن طلحہ والی روایت اصح طریقے سے آئی، تو بنی امیہ کے ٹکسالوں میں انہی ابن عباس کے نام سے جھوٹی روایت گھڑ دی گئی کہ یہ روایت وفات ابو طالب کے وقت نازل ہوئی۔
2۔ اس آیت 9:113 کے نزول کے متعلق فقط یہ دو زمانے ہی نہیں پائے جاتے، بلکہ اہلسنت کی حدیث کی کتب اور ابن کثیر اور تمام مفسرین نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ یہ آیت ابو طالب کے وفات کے سالہا سال بعد اُس وقت نازل ہوئی جب غزوہ تبوک سے واپسی پر رسول (ص) اپنی والدہ آمنہ کی قبر پر گئے۔
امام حاکم، طبری، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے ابن مسعود کے طریقے سے جبکہ بریدہ، طبرانی، ابن مردویہ اور طبری نے عکرمہ کے طریقے سے ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا:
💥"جب رسول اکرم (ص) غزوہ تبوک سے واپس آئے تو آپ نے عمرہ ادا کیا اور پھر اپنی والدہ کی قبر پر گئے۔ تب آپ نے اللہ تعالی سے ان کے لیے استغفار کرنے کی اجازت مانگی اور یہ تمنا بھی کی کہ وہ آپ کو قیامت کے دن انکی شفاعت کرنے کی اجازت بھی دے۔ لیکن خدا تعالی آپ (ص) کی یہ دونوں دعائیں قبول نہ فرمائیں اور اس وقت آیت استغفار (سورۃ توبہ آیت 113) نازل ہوئی۔"
یہ روایت بھی زمانہ نزول کے اعتبار سے سعید بن المسیب کی روایت کو جھٹلا رہی ہے۔ مگر مخالفین کو چونکہ جناب ابو طالب کو کافر ثابت کرنا ہے، اس لیے ان بقیہ روایات کو چھوڑ کر سعید ابن مسیب کی تدلیس شدہ روایت کو گلے سے لگائے بیٹھے ہیں۔
3۔ اس آیت کے نزول کے وقت کے متعلق فقط یہ تین مختلف روایات ہی نہیں، بلکہ علامہ عبداللہ خنیزی نے اپنی کتاب “ابو طالب، مومنِ قریش (ڈاؤنلوڈ لنک)" میں یہ 18 اہلسنت روایات نقل کرتے ہیں اور پھر انکے متعلق یہ تبصرہ کرتے ہیں:
اس آیت استغفار 9:113 کے متعلق یہ اٹھارہ عدد نزول کی داستانیں ہیں جن کو احادیث و روایات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ہمیں نہ ان پر تنقید و تبصرہ کرنا ہے اور نہ ان کے متعلق کوئی فیصلہ دینا ہے، یہ بات ہمارے موضوع سے خارج ہے۔ ہماری نظر میں یہ سب بے ربط و بے بنیاد ہیں۔ ہمارا مقصد تو فقط یہ واضح کرنا ہے کہ آیت کے نزول کے بارے میں کتنا شدید اختلاف اور کتنا عظیم تعارض ہے۔ یا یوں کہا جائے کہ آیت کو اسکے مرکز سے ہٹانے کے لیے کتنے ہتھکندے روئے کار لائے گئے ہیں اور قرآن کو کس کس انداز سے برباد کیا گیا ہے۔
4۔ امام اہلسنت علامہ زمخشری کو بھی ان تضادات کا احساس تھا اس لیے وہ تحریر فرماتے ہیں:
اس آیت کا رسول (ص) کی والدہ کے متعلق نزول کا قول صحیح ہے کیونکہ ابو طالب کی وفات ہجرت سے قبل واقع ہو گئی تھی جبکہ یہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی ہے۔ (حوالہ: تفسیر کشاف، تفسیر آیت 9:113۔۔۔۔ اور تفسیر بیضاوی)
ہم تو اسکے قائل نہیں کہ یہ آیت رسول (ص) کی والدہ کے لیے نازل ہوئی ہو۔ مگر یہاں انکے قول کو نقل کر کے فقط ابن مسیب کی روایت میں ان تضادات کو دکھانا مقصود ہے کہ امام اہلسنت علامہ زمخشری بھی اس بات کو ہضم نہیں کر پا رہے کہ مدینہ میں نازل ہونے والے اس آخری سورے کی آیت کو پکڑ کر مکی زندگی میں فوت ہونے والے جنابِ ابو طالب پر زبردستی جڑ دیا جائے۔
5۔ امام اہلسنت علامہ قسطلانی کہتے ہیں کہ:
تحقیقی طور پر یہ بات ثابت ہے کہ رسول اکرم (ص) اپنی والدہ کی قبر پر آئے اور استغفار کرنا چاہا تو یہ آیت نازل ہوئی ۔۔۔ اسی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت حضرت ابو طالب کی وفات کے بعد نازل ہوئی ہے اور اصل یہ ہے کہ یہ آیت دو مرتبہ نازل نہیں ہوئی ہے۔ (حوالہ: ارشاد الساری از قسطلانی، جلد 7، صفحہ 270)
6۔امام اہلسنت اور مایہ ناز مفسر امام قرطبی اس آیت کے ذیل میں حسین ابن فضل کے قول کو درست قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
وقال الحسين بن الفضل: وهذا بعيد؛ لأن السورة من آخر ما نزل من القرآن، ومات أبو طالب في عنفوان الإسلام والنبيّ صلى الله عليه وسلم بمكة.
ترجمہ:
... اور حسین بن فضل کہتے ہیں: اس آیت کا جناب ابو طالب کے بارے میں نازل ہونا ایک بعید بات ہے۔ کیونکہ یہ سورہ توبہ میں ہے جو قرآن مجید میں نازل ہونیوالے آخری سوروں میں سے ہے، جبکہ ابو طالب اسلام کے ابتدائی دور میں ہی فوت ہو گئے تھے اور اس وقت رسول اللہ (ص) ابھی مکہ میں ہی تھے۔
💥ابن مسیب کی اس روایت پر مزید بہت ہی تفصیلی تنقید (جن میں تمام رواۃ پر بات کی گئی ہے اور ان کا ضعیف ہونا ثابت کیا گیا ہے) پڑھیے علامہ عبداللہ خنیزی کی کتاب “ابو طالب، مومنِ قریش" میں۔
کیا آیت 9:113 رسول (ص) کی والدہ کے لیے نازل ہوئی (معاذ اللہ)
بہتر ہے کہ ان مخالفین کے ایک اور تضاد کو واضح کر دیا جائے تاکہ لوگ گمراہی سے بچ سکیں۔
ان مخالفین کا دعوی ہے کہ مکہ میں ابو طالب کی وفات کے وقت یہ آیت نازل ہوئی:
(القرآن 9:113)نبی (ص) اور ایمان والوں کی شان کے لائق نہیں کہ مشرکوں کے لئے دعائے مغفرت کریں اگرچہ وہ قرابت دار ہی ہوں اس کے بعد کہ ان کے لئے واضح ہو چکا کہ وہ اہلِ جہنم ہیں۔
تو سوال یہ ہے کہ رسول (ص) پھر کیوں اس آیت کے نزول کے سالہا سال بعد تبوک کے وقت اپنی مشرکہ والدہ (معاذ اللہ) کے لیے استغفار کی اجازت مانگ رہے ہیں؟ کیا یہ بات رسول (ص) کی شان کے لائق ہے؟
ان مخالفین نے تو وہ توہینِ رسالت مچا رکھی ہے کہ رسول (ص) کو ایک عام مومن کی شان سے بھی گرا دیا ہے۔ اللہ صاف صاف فرما چکا ہے کہ نبی (ص) اور مومن کی یہ شان ہی نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے استغفار کریں۔
مزید طرہ یہ کہ استغفار کی ممانعت کے بعد بھی معاذ اللہ رسول (ص) باز نہیں آتے اور اپنی مشرکہ والدہ کے لیے شفاعت کی اجازت طلب کرتے ہیں۔ لاحول واللہ قوۃ۔
سچ ہے کہ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے ہزار مزید جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔
بنی امیہ کے ٹکسالوں سے نہ صرف ابو طالب، بلکہ رسول (ص) کے والدین کو بھی کافر بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا، اور نتیجہ نکلا ایسی بے ہودہ روایات کی صورت میں جس میں کھل کر رسول (ص) کی توہین کر کے انہیں ایک عام مومن کی شان سے بھی نیچے گرا دیا گیا۔
اس موقع پر چند قرآنی آیات پیش خدمت ہیں جو سب کی سب تبوک کے واقعے سے پہلے کی ہیں:
(سورۃ المجادلہ، آیت 22) جو لوگ خدا اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، تم ان کو خدا اور اس کے رسول کے دشمنوں سے دوستی کرتے ہوئے نہ دیکھو گے، اگرچہ کہ وہ انکے باپ یا بیٹے یا بھائی یا خاندان ہی کے لوگ کیوں نہ ہوں۔ یہی وہ گروہ مومنین ہے جن کے دلوں میں خدا نے ایمان کو ثابت کر دیا ہے اور خاص اپنی روح سے انکی تائید کی ہے۔
ابن ابی حاتم، طبرانی، حاکم، ابو نعیم، بیہقی، ابن کثیر، شوکانی اور آلوسی نے نقل کیا ہے:
"بعض تفاسیر کے مطابق سورہ مجادلہ کی یہ آیت ہجرت کے دوسرے سال میں جنگ بدر کے دن نازل ہوئی تھی، جبکہ سیرت حلبیہ کے مطابق مؤرخین اور مفسرین متفق ہیں کہ یہ آیت ہجرت کے تیسرے سال میں جنگ احد کے موقع پر نازل ہوئی ہے۔"
سورۃ النساء، آیت 144:
"اے ایمان والو! مومنوں کی بجائے کافروں کو اپنا سرپرست اور دوست نہ بناؤ۔ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اپنے اوپر خدا کا ایک صریح الزام قائم کر لو؟"
یہ آیت سورہ نساء میں آئی ہے جو مکی سورۃ ہے۔ امام قرطبی کے مطابق سورہ نساء ہجرت کے ابتدائی سالوں میں مدینہ میں نازل ہوئی۔
سورۃ المنافقون، آیت 6:
(القرآن، سورۃ المنافقون، آیت 6) تم ان کے لیے مغفرت کی دعا مانگو یا نہ مانگو، کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ خدا انہیں ہرگز بخشنے والا نہیں۔"
یہ آیت سورہ منافقون میں ہے اور اسکے حکم میں منافق اور کافر دونوں شامل ہیں۔ اور جیسا کہ سیرت رسول (ص) اور غزواتِ پیغمبر کی کتابوں کے مؤلفین میں مشہور ہے کہ یہ سورہ ہجرت کے چھٹے سال میں غزوہ بنی مصطلق کے موقع پر نازل ہوا۔ یہی بات ابن کثیر نے بھی نقل کی ہے اور امام قرطبی نے بھی۔
ایمان والوں کے لیے سبق پورا ہے کہ وہ دیکھ سکیں کہ بنی امیہ کی ٹکسالوں میں گھڑی گئی ان بیہودہ روایتوں نے رسول اکرم (ص) کی وہ توہین کی ہے کہ جس پر ایمان والے ان بیہودہ باتوں پر فقط منہ پھیر کر لاحول پڑھتے ہوئے گذر جائیں۔
اللھم صلی علی محمد و آل محمد
💥سورۃ قصص کی آیت 28:56 کو غلط طور پر جناب ابو طالب پر تھوپنا
اس جھوٹی گھڑی ہوئی روایت میں سورۃ براۃ کے جھوٹ پکڑے جانے کے بعد آئیں اب ابن مسیب کی اس روایت میں سورۃ قصص کے متعلق بولا گیا جھوٹ پکڑتے ہیں۔
ابن مسیب کہتا ہے: ۔۔۔۔ یہ آیت 28:56 خاص طور پر ابو طالب کے لیے نازل ہوئی۔
قرآن بذات خود کافی ہے کہ وہ ابن مسیب کے اس الزام کو جھٹلا دے۔
قرآن اس آیت کے معاملہ میں اتنا صاف صاف ہے کہ اہلسنت کے مشہور مفسر علامہ فخر الدین کبیر رازی کو بھی اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں لکھنا پڑ گیا کہ:
ھذہ الایۃ لادلالۃ فی ظاہرھا علی کفر ابی طالب
ترجمہ:
اس آیت کا ظاہر تو ابو طالب کے کفر پر دلالت نہیں کر رہا ہے
سوال یہ ہے کہ کس چیز نے امام رازی کو یہ لکھنے پر مجبور کیا ہے کہ اس آیت کا ظاہر تو کسی طرح ابو طالب کے کفر پر دلالت نہیں کر رہا؟
اس سوال کا جواب جاننے کے لیے اس آیت کے سیاق و سباق والی آیات کا مطالعہ کریں تو آپ پر خود واضح ہو جائے گا کہ امام رازی کو یہ بات کیوں لکھنی پڑی ہے۔
سورۃ قصص کی آیت 56 سے قبل آیت 55 یہ ہے:
(28:55) اور جب (مومنین) بیہودہ بات سنتے ہیں تو اس سے منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم کو ہمارے اعمال اور تم کو تمہارے اعمال۔ تم کو سلام۔ ہم جاہلوں کے خواستگار نہیں ہیں
💥تبصرہ:
اس پچھلی آیت میں اللہ تعالی مومنین کی ایک عام نشانی بتلا رہا ہے کہ جب وہ بیہودہ بات سنیں تو منہ پھیر لیتے ہیں۔ اب اگلی دو آیات دیکھیں:۔
(28:56) بلاشُبہ تم (اے نبی) نہیں ہدایت دے سکتے جسے چاہو لیکن اللہ ہدایت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور وہ خوب جانتا ہے ہدایت پانے والوں کو۔
(28:57) اور وہ کہتے ہیں اگر ہم تیرے ساتھ ہدایت پر چلیں تو اپنے ملک سے دربدر (اغوا) کیے جائیں گے۔۔۔
تبصرہ:
ابن مسیب کی اس جھوٹی گھڑی ہوئی روایت کے مطابق سورۃ قصص کی یہ 56 نازل ہوئی ہے جب جناب ابو طالب "بستر مرگ" پر پڑے ہیں ایڑیاں رگڑ رہے ہیں۔
مگر اس آیت میں اشارہ ہرگز ابو طالب کی طرف نہیں ہو سکتا کیونکہ اللہ صاف صاف طور پر "جمع" کا صیغہ استعمال کر رہا ہے۔
اور اس سے اگلی آیت میں اللہ بذات خود اس جمع کے صیغے کی بالکل کھل کر وضاحت کر رہا ہے کہ یہ آیت کن لوگوں کے لیے نازل ہوئی تھی:۔۔۔۔۔ یعنی یہ آیت اُن لوگوں (جمع) کے لیے نازل ہوئی تھی جنہیں "ڈر" تھا کہ اگر وہ "ہدایت" کی پیروی کریں گے تو انہیں اپنے گھروں سے دربدر ہونا پڑے گا۔
اس آیت کو پھر ایک مرتبہ غور سے دیکھیں:
(28:57) اور وہ کہتے ہیں اگر ہم تیرے ساتھ ہدایت پر چلیں تو اپنے ملک سے دربدر (اغوا) کیے جائیں گے۔۔۔
تو سوال ہے کیا جناب ابو طالب واقعی اس "ڈر" سے ہدایت قبول نہیں کر رہے کہ وہ اپنے گھر سے دربدر کیے جائیں گے؟
یاد رہے کہ اس وقت جناب ابو طالب "بستر مرگ" پر پڑے ہیں اور مرنے میں بس فقط چند سانسیں باقی ہیں۔ تو کیا اس مرگ کی حالت میں جناب ابو طالب اپنے گھر سے دربدر ہو جانے کے ڈر سے ہدایت ٹھکرائیں گے؟
اور کیا یہ وہی حضرت ابو طالب نہ تھے جنہوں نے بذات خود رسول اللہ (ص) کی حفاظت کے لیے اپنا گھر بار چھوڑ کر تین سال تک شعیب ابی طالب کی گھاٹی میں طرح طرح کی مشکلات اور مصائب اور جان کے خطرات کو برداشت کیا تھا؟ تو کیا ابو طالب جیسا شخص جو اب بستر پر پڑا مرنے کے بالکل قریب ہے، وہ گھر سے دربدر ہونے کے "ڈر" سے ہدایت کو ٹھکرائے گا؟
ایمان والوں کو نصیحت ہے کہ بنی امیہ کے ٹکسالوں میں گھڑی گئی روایتوں پر آنکھیں بند کر کے ایمان لانے کی بجائے تدبر و تفکر کے دروازے کھلے رکھا کریں۔
مخالفین کا آیت 28:56 کے “عموم” کا عذر پیش کرنا
مخالفین کا واحد عذر یہ ہے کہ آیت 28:56 نازل ابو طالب کے کفر پر ہوئی ہے، اور آیت کا عموم دیکھا جاتا ہے۔
حیرت ہے کہ اس "عموم" کی بحث زبردستی بیچ میں ڈال کر "خاص" کو نظر انداز کرتے ہوئے، قرآن کی مخالفت میں اس آیت کو جناب ابو طالب پر چسپاں کیا جا رہا ہے۔
سعید ابن مسیب کی روایت میں دعوی کیا گیا ہے کہ یہ آیت "عموم" نہیں بلکہ خاص طور پرنام لے کر دعوی کیا جا رہا ہے کہ یہ ابو طالب کے کفر کے لیے نازل کی گئی۔
اور انکے اس “عموم” کے دعوی کا رد اللہ بذات خود براہ راست کر رہا ہے۔ پھر سے اس آیت کو دیکھئیے:
(28:56) بلاشُبہ تم (اے نبی) نہیں ہدایت دے سکتے جسے چاہو لیکن اللہ ہدایت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور وہ خوب جانتا ہے ہدایت پانے والوں کو۔
اگر خالی یہ آیت ہوتی تو پھر بھی شاید یہ "عموم" کا عذر چل جاتا۔
مگر اللہ تعالی نے تو بذات خود اس عموم کے تمام راستے بند کر دیے اور اگلی آیت میں ان لوگوں کی نشانی بتا کر خود اسے "خاص" کر دیا۔
(28:57) اور وہ کہتے ہیں اگر ہم تیرے ساتھ ہدایت پر چلیں تو اپنے ملک سے دربدر کیے جائیں گے۔۔۔
بے شک اللہ کی تدبیر بہترین ہے۔
(القرآن 3:54) وَمَكَرُواْ وَمَكَرَ اللّهُ وَاللّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ
اور انہوں نے خفیہ تدبیر کی اور الله نے بھی خفیہ تدبیر فرمائی اور الله بہترین خفیہ تدبیر کرنے والو ں میں سے ہے
تمام اہل تدبر و تفکر خود انصاف سے فیصلہ کریں کہ:
کیا جناب ابو طالب واقعی اس "ڈر" سے ہدایت قبول نہیں کر رہے کہ وہ اپنے گھر سے دربدر کیے جائیں گے؟ یاد رہے کہ اس وقت جناب ابو طالب "بستر مرگ" پر پڑے ہیں اور مرنے میں بس فقط چند سانسیں باقی ہیں۔ تو کیا اس مرگ کی حالت میں جناب ابو طالب اپنے گھر سے دربدر ہو جانے کے ڈر سے ہدایت ٹھکرا رہے ہیں؟
ائمہ اہلبیت علیھم السلام کی تعلیم یہ ہے کہ:
ہر روایت کو قرآن کی روشنی میں پرکھو۔ اگر قرآن کے مطابق ہو تو قبول کر لو، ورنہ ردی کی ٹوکری کی نظر کر دو۔
اللھم صلی علی محمد و آل محمد
💥رسول اللہ (ص) پر بنی امیہ کا ایک اور جھوٹ کہ وہ ممانعت آنے کے باوجود روز محشر ابو طالب کی شفاعت کریں گے
جناب ابو طالب کو کافر بنانے کے چکر میں بنی امیہ رسولِ خدا (ص) پر ایک اور بہتان باندھ رہے ہیں۔ اور وہ یہ کہ ابو طالب اپنے کفر کی وجہ سے جہنم میں ہوں گے، چنانچہ اپنی شان سے گر کے اللہ کے رسول (ص) روزِ محشر ابو طالب کی شفاعت کریں گے۔
صحیح بخاری، کتاب الرقاق:
ابو سعید خدری سے روایت ہے:
جب ابو طالب کا ذکر ہوا تو میں نے اللہ کے رسول کو کہتے سنا: امید ہے میری شفاعت ان کی روزِ محشر مدد کرے گی اور انہیں ضحضاح (کم آگ والی جگہ )پر لے آئے گی جو کہ انکے (ابو طالب) کے ٹخنوں تک آ رہی ہو گی اور اس کی گرمی کی شدت سے انکا بھیجہ ابلتا ہو گا۔
اور صحیح مسلم،باب شفاعت النبی کی روایت ہے:
عبداللہ ابن عمرا القواریری، محمد بن ابو بکر المقدمی، محمد بن عبدالملک اموی نے ابو عوانہ، عبدالملک بن عمر، عبداللہ بن حارث بن نوفل کے واسطے سے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ میں نے سوال کیا۔ یا رسول اللہ، کیا آپ کی حمایت ابو طالب کے کچھ کام نہ آئی؟ رسول (ص) نے جواب دیا، ہاں، اس وقت وہ ضحضاح (جہنم میں کم درجے والی آگ) میں ہیں۔ اگر میں نہ ہوتا تو وہ درک اسفل (جہنم کا نچلا حصہ) میں ہوتے (یعنی پہلے ہی شفاعت ہو چکی ہے)۔
بنی امیہ کے ٹکسالوں میں گھڑی گئی یہ روایات سراسر قرآنی احکام کی مخالف ہیں اور نبی (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی وہ توہین کر رہی ہیں کہ کوئی ایمان والا تدبر و تفکر کرنے کے بعد اسے منہ نہیں لگا سکتا۔
قرآن میں اللہ نے اپنے نبی (ص) پر بہت صاف الفاظ میں واضح کر دیا تھا:۔
(القرآن 9:113) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ایمان والوں کی شان کے لائق نہیں کہ مشرکوں کے لئے دعائے مغفرت کریں اگرچہ وہ قرابت دار ہی ہوں اس کے بعد کہ ان کے لئے واضح ہو چکا کہ وہ (مشرکین) اہلِ جہنم ہیں
نبی کی رسالت کی اور کیا توہین کریں گے آپ جن نبی پر آپ یہ الزام لگا رہے ہیں کہ نبی اللہ کی اس صاف اور واضح حکم کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے مشرک چچا کے لیے روز محشر شفاعت کرتے ہوں گے۔ استغفر اللہ۔
اللہ تعالی اپنے نبی (ص) کو اس بہتان کے شر سے محفوظ رکھے۔ امین۔
(القرآن 58:22) آپ ایسی کوئی قوم نہ پائیں گے جو الله اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہو اور ان لوگو ں سے بھی دوستی رکھتے ہوں جو الله اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں گو وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا کنبے کے لوگ ہی کیوں نہ ہوں
شاید یہ لوگ نبی اکرم (ص) کو ایک عام مومن کے درجے کا شخص بھی نہیں سمجھتے جو ان پر روز قیامت اپنے مشرک چچا کی شفاعت کا الزام لگا رہے ہیں۔
(القرآن 9:80) تو نبی تو ان کے لیے بخشش مانگ یا نہ مانگ (کوئی فائدہ نہیں کیونکہ) اگر تو ان کے لیے ستر دفعہ بھی بخشش مانگے گا تو بھی الله انہیں ہر گز نہیں بخشنے والا نہیں ۔۔۔۔
اور یہ آیت دیکھئیے:
(القرآن 2:86) وہ لوگ جنہوں نے دنیاوی زندگی کو اخروی زندگی کے بدلے خریدا پس ان سے عذاب کی تخفیف نہ کی جائے گی اور نہ ہی انکی مدد کی جائے گی
رسول (ص) کی توہین تو بنی امیہ کے ان چاہنے والوں نے کی ہی کی، مگر ساتھ میں اللہ کی توہین کرنے سے بھی باز نہیں آئے کہ اللہ اپنے وعدے کے خلاف روز محشر کافر کی شفاعت کو قبول کرے گا۔ معاذ اللہ۔
💥مشرکہ والدہ (معاذ اللہ) کی شفاعت نہیں مگر مشرک ابو طالب (معاذ اللہ) کی شفاعت؟
اور ایک طرف دعوی کیا جاتا ہے کہ رسول اللہ (ص) کی والدہ زمانہ فترت کی مشرکہ ہیں اس لیے کم درجہ کی مشرکہ ہیں۔ جبکہ ابو طالب کے متعلق دعوی ہے کہ وہ بڑے درجے والے کافر ہیں کیونکہ انہوں نے حق آ جانے کے بعد بھی اسکا انکار کیا۔
مگر کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ رسول اللہ (ص) اپنی کم درجہ والی مشرکہ والدہ (معاذ اللہ) کے لیے استغفار کی دعا مانگتے ہیں تو وہ رد ہو جاتی ہے، پھر آپ کے لیے شفاعت کی اجازت طلب کرتے ہیں، مگر وہ بھی رد ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔ پرانکے زعم کے مطابق بڑے کافر (معاذ اللہ) ابو طالب کے لیے استغفار بھی سالہا سال تک چلتی رہتی ہے (حتی کہ والدہ کی ممانعت کے بعد بھی) اور پھر روز محشر اللہ کے تمام تر قرآنی وعدوں کے برخلاف انکے شفاعت بھی ہو رہی ہے۔
انہی مخالفین کی کتب میں ابن عباس اور ابن مسعود سے نقل کیا جاتا ہے:
"جب رسول اکرم (ص) غزوہ تبوک سے واپس آئے تو آپ نے عمرہ ادا کیا اور پھر اپنی والدہ کی قبر پر گئے۔ تب آپ نے اللہ تعالی سے ان کے لیے استغفار کرنے کی اجازت مانگی اور یہ تمنا بھی کی کہ وہ آپ کو قیامت کے دن انکی شفاعت کرنے کی اجازت بھی دے۔ لیکن خدا تعالی آپ (ص) کی یہ دونوں دعائیں قبول نہ فرمائیں اور اس وقت آیت استغفار 9:113 نازل ہوئی"۔
تفسیر ابن کثیر میں آیت 9:113 کی تفسیر کے ذیل میں یہ روایت مذکور ہے:
نبی (ص) نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے مجھے چند باتیں وحی کی ہیں جو میرے کانوں میں گونج رہی ہیں اور میرے دل میں جگہ پکڑے ہوئے ہیں۔ مجھے حکم فرمایا گیا کہ میں کسی ایسے شخص کے لیے استغفار نہ کروں جو شرک پر مرا ہو۔
نیز تفسیر ابن کثیر میں آیت 9:114 کے ذیل میں یہ روایت ہے:
قیامت کے دن جب حضرت ابراہیم سے انکا باپ ملے گا، نہایت سراسیمگی، پریشانی کی حالت میں، چہرہ غبار آلود اور کالا پرا ہوا ہو گا، کہے گا کہ ابراہیم آج میں تیری نافرمانی نہ کروں گا۔ حضرت ابراہیم جناب باری تعالی میں عرض کریں گے کہ میرے رب تو نے مجھے قیامت کے دن رسوا نہ کرنے کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ اور میرا باپ تیری رحمت سے دور ہو کر عذابوں میں مبتلا ہو؟ تو یہ تو بہت رسوائی کی بات ہے۔ اس پر فرمایا جائے گا کہ اپنی پیٹھ پیچھے دیکھو ۔۔۔۔ دیکھیں گے کہ ایک بجو کیچڑ میں لتھڑا ہوا کھڑا ہے۔ یعنی ابراہیم کے والد کی صورت مسخ ہو گئی ہو گی اور اس کے پاؤں پکڑ کر گھسیٹ کر اسے دوزخ میں ڈالا جائے گا۔ (اردو ترجمہ از اہلحدیث عالم مولانا جوناگڑھی)
(ابن کثیر نے یہ روایت صحیح بخاری، کتاب الاحادیث الانبیاء سے لی ہے۔ دیکھئیے صحیح بخاری کی اس روایت کا سعودی آفیشل ترجمہ)۔
کیا اب بھی کوئی اہل ایمان اور قرآن میں تدبر اور تفکر کرنے والا ایسا ہو سکتا ہے جو بنی امیہ کے ٹکسالوں میں گھڑی ان روایات پر یقین لا سکے؟
عذر: کافر کے لیے استغفار وشفاعت نہیں، مگر جناب ابو طالب کی وفات کے وقت ممانعت نہیں آئی تھی
ان قرآنی آیات کے مقابلے میں فرار کا کوئی رستہ نہیں بچتا تو ترکش کا آخری تیر بہانے کا لبادہ اوڑھ کر آتا ہے کہ بے شک کافر کے لیےاستغفار و شفاعت نہیں، مگر جناب ابو طالب کی شفاعت اس لیے ہو گئی کیونکہ اس وقت اسکی ممانعت نہیں آئی تھی۔
اگر یہ لوگ قرآن میں تدبر و تفکر کرتے تو دیکھتے کہ اللہ تعالی کی یہ سنت تو ابراہیم علیہ السلام کے باپ (چچا) آذر کے وقت سے ہے کہ کافر و مشرک کے لیے استغفارہے، نہ شفاعت اور نہ کوئی اور فائدہ۔
بلکہ اگر قرآن میں تدبر و تفکر کیا جائے تو یہ سنت تو نوح علیہ االسلام اور انکے بیٹے کے وقت سے چلی آ رہی ہےجو ابراہیم (ع) اور آذر کے وقت بھی نہیں بدلی۔
اور قرآن میں ہی اللہ وعدہ فرماتا ہے کہ تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے (القرآن 33:62)
چنانچہ ممکن نہیں کہ اللہ اپنی سنت کے خلاف عمل کرے۔
اور انکی اپنی ابن مسیب کی روایت کے مطابق جناب ابو طالب کے لیے جب رسول (ص) نے استغفار کیا تو یہ آیت نازل ہو گئی جس میں ایسے سخت الفاظ سے کفار و مشرکین کے لیے استغفار کو منع کیا گیا کہ اللہ نے ایسے فعل کو نبی (ص) اور مومنین کی شان ہی کے خلاف قرار دے دیا۔ اور اسی وقت ابراہیم (ع) اور آذر کی مثال ساتھ پیش کر دی کہ یہ اُس وقت کی سنت ہے کہ آذر کے مرنے پر ابراہیم اس سے بیزار ہو گئے۔
تو کیا اللہ نے اپنی سنت کے خلاف جا کر ابو طالب کی شفاعت قبول کر لی؟
اور جو بات نبی (ص) اور مومنین کی شان تک کے خلاف ہے، تو کیا اللہ ان سے بھی (معاذ اللہ) گیا گذرا ہے کہ اپنی شان کے خلاف جاتے ہوئے کافر و مشرک کی شفاعت قبول کر لے؟
کیا قرآن میں تدبر و تفکر کرنے والے یہ قبول کر سکتے ہیں کہ رسول (ص) ابو طالب کی وفات پر استغفار کرنا شروع کریں۔۔۔ پھر اللہ ابو طالب کے لیے انکی شفاعت قبول کر لے۔۔۔ اور پھر اس کے بعد ایسی سخت آیات اتارے کہ یہ نبی (ص) اور مومنین کی شان ہی نہیں کہ وہ کفار و مشرکین کے لیے استغفار کریں؟
پھر جناب ابو طالب کو (معاذ اللہ) کافر بنانے کے لیے یہی لوگ بے باکی سے بخاری کی روایت پیش کرتے ہیں کہ روز محشر پھر رسول ابو طالب کی شفاعت کرتے ہوں گے۔ اب بتلائیں کہ اس روایت کا دفاع کیسے کیا جائے گا؟
ان لوگوں نے لولا لنگڑا عذر تو پیش کر دیا، مگر کیا انہیں اس عذر میں موجود یہ تضادات نظر نہیں آتے؟
مخالفین آیت 9:113 کے نزول کا صحیح وقت کیوں نہیں بتلاتے؟
آپ دیکھیں گے کہ مخالفین کبھی آیت 9:113 کے نزول کا صحیح وقت نہیں بتلائیں گے کہ:
کیا یہ آیت جناب ابو طالب کی وفات کے وقت نازل ہوئی (یا اسکے چند دن بعد نازل ہوئی)؟
یا پھر یہ آیت حضرت آمنہ کی قبر کی زیارت کے بعد نازل ہوئی؟
ہر دفعہ جواب کو گول مول کر کر فرار ہونا چاہیں گے، اور وجہ اسکی یہ ہے کہ ہر دو صورتوں میں اللہ نے انکے لیے فرار کے راستے بند کیے ہوئے ہیں۔
اگر یہ کہتے ہیں کہ یہ آیت حضرت ابو طالب کی وفات کے وقت نازل ہوئی (یا اسکے چند دن بعد نازل ہوئی) تو پھنستے ہیں کہ پھر رسول اللہ نے اتنی واضح آیت آ جانے کے بعد سالہا سال بعد اپنی والدہ کے لیے استغفار کیوں کرنا چاہا جبکہ اللہ فرما چکا ہے کہ نبی (ص) اور مومنین کی یہ شان ہی نہیں کہ وہ کفار و مشرکین کے لیے دعا کریں؟
اور اگر یہ کہتے ہیں کہ یہ آیت تبوک (یعنی والدہ کی قبر کی زیارت) کے بعد نازل ہوئی اور اس لیے یہ رسول (ص) کی شان کے خلاف نہیں تھا کہ وہ اپنی والدہ کے لیے استغفار کی اجازت طلب کرتے، تو پھر یہ مضحکہ خیز تضاد سب کو واضح ہو جائے گا کہ رسول (ص) دس گیارہ سال تک ابو طالب کے لیے استغفار کرتے رہے اور اللہ نے کچھ نازل نہیں فرمایا، بلکہ اس دوران (معاذ اللہ) خود اپنی سنتِ الہیہ کے خلاف ابو طالب کی شفاعت بھی قبول کر لی، ۔۔۔۔ اور پھر دس گیارہ سال بعد جا کر ایسی سخت آیت نازل کرنا یاد آیا کہ یہ بات تو نبی اور مومنین کی شان کے ہی خلاف ہے کہ وہ کسی کافر یا مشرک کے لیے استغفار کریں۔
قرآن میں تدبر و تفکر کرنے والوں کے لیے پیغام پورا ہے کہ سبق حاصل کریں۔ شکر الحمد للہ۔
اللھم صلی علی محمد و آل محمد
میراث کی روایات سے جناب ابو طالب کو کافر ثابت کرنا
ناصبیوں کے سلف آل محمد کو بدنام کرنے کے لیے بنی امیہ کی ٹکسالوں سے جھوٹی روایات گھڑتے چلے گئے، مگر اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے اور اس نے انکے ہر حربے کا توڑ رکھا ہے تاکہ تدبر و تفکر کرنے والے حق کو باطل سے علیحدہ کر سکیں۔ شکر الحمد للہ۔
مخالفین اسامہ بن زید کی یہ دو روایات پیش کر کے جناب ابو طالب کو کافر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
پہلی روایت:
صحیح بخاری، کتاب المغازی:
اسامہ بن زید نے فتح (مکہ کے وقت کہا: اے اللہ کے رسول ہم کل کہاں پڑاؤ ڈالیں گے؟ رسول اللہ (ص) نے جواب دیا: "لیکن کیا عقیل نے کوئی گھر ہمارے رہنے کو چھوڑا ہے”؟ پھر مزید کہا: "کوئی مومن کسی کافر کا وارث نہیں ہو سکتا اور کوئی کافر کسی مومن کی جائیداد میں وراثت نہ پائے گا”۔
زہری سے پوچھا گیا کہ ابو طالب کی جائیداد کس کو ملی؟ زہری نے جواب دیا: "عقیل اور طالب اسکے وارث ہوئے”۔
دوسری روایت:
صحیح بخاری، کتاب الحج:
اسامہ بن زید کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! آپ مکہ میں کہاں ٹہریں گے؟ کیا آپ مکہ میں اپنے گھر میں ٹہریں گے”؟ انہوں نے جواب دیا: کیا عقیل نے کوئی جائیداد یا گھر چھوڑا ہے؟
(اسامہ مزید کہتے ہیں) عقیل اور طالب کو ابو طالب کی جائیداد ملی تھی۔ جعفر اور علی کو جبکہ جائیداد سے کچھ نہیں ملا تھا کیونکہ وہ مسلمان تھے جبکہ بقیہ دو کافر۔ عمر ابن خطاب کہتے ہیں کہ ایک مومن ایک کافر کا وارث نہیں ہو سکتا۔
ابن شہاب کہتے ہیں: انہوں نے (عمر اور دیگر) نے یہ فیصلہ اللہ تعالی کی اس آیت کی بنیاد پر دیا ہے:
(القرآن 8:72) بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے (اللہ کے لئے) وطن چھوڑ دیئے اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے (مہاجرین کو) جگہ دی اور (ان کی) مدد کی وہی لوگ ایک دوسرے کے وارث ہیں۔
اس روایت سے پھر اندازہ ہوتا ہے کہ بنی امیہ کے ناصبی سلف کس طرح اہلسنت سلف محدثین میں گھل مل کر ایسی ایسی گھڑی ہوئی روایات کو بطور صحیح دنیا کے سامنے پیش کرنے میں کامیاب ہوئے۔ مگر اللہ نے پھر بھی ایک راستہ باقی رکھا تھا ۔ بنی امیہ کے ٹکسال میں گھڑی گئی ان دو روایتوں میں پھر تضادات ہیں۔
حیرت کی بات ہے کہ جب ابو طالب علیہ السلام کی وفات ہوئی تو اس وقت تو یہ حکم موجود ہی نہ تھا کہ مسلمان کافر کی وراثت نہیں لے سکتا۔ یہ حکم تو اسکے سالہا سال بعد جا کر مدینہ میں آتا ہے۔ اور میراث کے متعلق جس آیت کی طرف اوپر صحیح بخاری میں دعوی کیا جا رہا ہے (القرآن 8:72)، وہ تو بذات خودسو فیصد مدنی آیت ہےکہ اس میں انصار کا ذکر ہے۔
چنانچہ یہ تو سو فیصدی جھوٹی گھڑی ہوئی روایت ہے کہ علی کو وراثت اس لیے نہیں ملی کیونکہ حضرت ابو طالب کافر تھے۔
یہ ناممکنات میں سے ہے کہ جبرئیل شریعت کا حکم تو سالہا سال بعد مدینے میں لے کر نازل ہوں، مگر جعفر اور علی شریعت آنے سے قبل ہی اس پر عمل کرتے ہوں؟
اور کیا رسول اللہ (ص) کا مکہ میں گھر ابو طالب (ع) کی ملکیت تھی؟ تو عقیل کو کب وہ وراثت میں ملا؟ کیا حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کا گھر اپنا نہ تھا؟
اور اگر عقیل اور طالب دونوں کو ابو طالب کی وراثت ملی، تو پھر رسول (ص) فقط عقیل پر الزام کیوں رکھ رہے ہیں کہ انہوں نے انکے رہنے کی کوئی جگہ نہیں چھوڑی؟ ساتھ میں وہ طالب کا نام کیوں نہیں لیتے؟
امام اہلسنت علامہ زینی دحلان فرماتے ہیں کہ ابو طالب کی وفات مکہ میں ہوئی اور اس وقت تک میراث کے احکامات ہی نہیں آئے تھے۔ تو پھر کیسے ممکن ہے کہ علی اور جعفر کو شریعت کا اصول آنے سے قبل ہی میراث سے بے دخل کر دیا گیا ہو؟
پھر آپ مزید لکھتے ہیں کہ ابو طالب کی وفات کےوقت میراث کے قوانین کا حکم ہی نہیں آیا تھا اور اس وقت رواج یہ بھی تھا کہ وصیت کے مطابق وراثت تقسیم ہوتی تھی۔اور ابو طالب کو چونکہ عقیل بہت عزیز تھے، تو ہو سکتا ہے کہ انہوں نے عقیل کو وصیت کے ذریعے اپنا وارث قرار دیا ہو۔
💥علامہ زینی دحلان کی اس بات کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ (ص) نے طالب کا بطور وارث ذکر نہیں کیا بلکہ صرف اور صرف عقیل کا ذکر کیا (طالب کا ذکر زہری نے کیا ہے جو صحابی ہی نہیں اور دور دور تک وفاتِ ابوطالب کے وقت موجود نہ تھا)۔
علامہ ابن عبدالبر اپنی کتاب استیعاب میں نقل کرتے ہیں:
رسول اللہ (ص) نے ایک دفعہ عقیل سے خطاب کرتے ہوئے کہا: اے ابو مسلم! میں تم سے دوہری محبت کرتا ہوں۔ ایک اپنی قرابت کی بناء پر اور ایک اس لیے کہ چچا تمہیں بہت چاہتے تھے۔ (حوالہ: الاستیعاب، جلد 3، صفحہ 157)
💥تمام اہل ایمان تدبر و تفکر کرنے والوں کے لیے ممکن نہیں کہ وہ بنی امیہ کی ایسی جھوٹی گھڑی ہوئی روایات پر کبھی ایمان لا سکیں۔
نوٹ:
ائمہ اہلبیت علیھم السلام کے مطابق مسلمان کافر سے وراثت پا سکتا ہے، لیکن کافر مسلمان سے نہیں۔
برادران اہلسنت کی کتب میں یہ روایت ملتی ہے:
جناب عمر سے منقول ہے کہ ہم مشرکین سے وراثت پاتے ہیں لیکن وہ ہم سے نہیں۔ (حوالہ: المصنف از حافظ عبدالرزاق، جلد 10، صفحہ 339 اور جلد 6 صفحہ 106)
نیز :
بہت سے فقہاء نے فتوی دیا ہے کہ مرتد کی میراث مسلمان کو ملتی ہے اور ہم ان سے وراثت پاتے ہیں مگر وہ ہم سے نہیں۔ (حوالہ: المصنف، جلد 6، صفحہ 104 تا 105 اور جلد 10 صفحہ 338 تا 341)
نوٹ: زہری بنی امیہ کا ناصبی تھا
💥بنی امیہ کے ناصبی کس طرح سے اہلسنت سلف علماء کی صفوں میں گھس آئے تھے، اسکا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ امام بخاری نے زہری سے اپنی صحیح میں سینکڑوں روایات نقل کی ہیں۔مگر یہ زہری کون تھا؟
امام اہلسنت ابن حبان لکھتے ہیں (کتاب المجروحین از ابن حبان, 1/278)
ولستُ أحفظ لمالك ولا للزهري فيما رويا من الحديث شيئاً من مناقب علي
ترجمہ:
مالک اور زہری نے حضرت علی ع کے مناقب میں کوئی روایت نقل نہیں کی
مزید امام اہلسنت ابن عساکر لکھتے ہیں:
قال جعفر بن إبراهيم الجعفري: كنت عند الزهري أسمع منه، فإذا عجوز قد وقفت عليه فقالت: يا جعفري، لا تكتب عنه، فإنه مال إلى بني أمية، وأخذ جوائزهم، فقلت: من هذه؟ قال: أختي رقية، خرفت، قال: خرفت أنت؛ كتمت فضائل آل محمد
ترجمہ:
جعفر بن ابراہیم الجعفری نے کہا: میں زہری کے پاس احادیث سننے گیا تھا کہ تب ایک عورت میرے پاس آئی اور کہا : ائے جعفر زہری سے روایت نہ کرو، یہ بنی امیہ کے قریب تھا۔میں نے زہری سے پوچھا یہ عورت کون ہے؟ زہری نے جواب دیا: "یہ میری بہن ہے اور سٹھایا گئی ہے"عورت نے جواب دیا پاگل تم ہو تم نے حضرت علی ع کے فضائل کو چھپایا
حوالہ تاریخ مدینۃ الدمشق از ابن عساکر, 42/227
اور الکعبی نے کہا:
لم يرو لعلي فضيلة قط وكان مروانياً
ترجمہ:
زہری نے کبھی حضرت علی ع کے مناقب کے بارے میں نہیں لکھا وہ بنی امیہ کے قریب تھا
حوالہ: قبول الاخبار و معرفۃ الرجال 1/269(آنلائن لنک)
زہری ظالموں کی حمایت کیا کرتا جیسا کہ امام ذہبی و آلوسی فرماتے ہیں. (سیر اعلام النبلائ ۵: ۷۳۳؛روح المعانی ۳: ۹۸۱ )
امام ذہبی نے امام جعفر صادق(رض) سے نقل کیا ہے کہ : ﴿اذا رأیتم الفقھائ قد رکنوا الی السّلاطین فاتّھموھم ﴾(سیر اعلام النبلاء ۶: ۲۴۲ )
زہری بنو اُمیہ کے مظالم کی توجیہ اور ان پر پردہ ڈالا کرتا .جیسا کہ عمرو بن عبدی کہتے ہیں:﴿ مندیل الأمرائ ﴾(تاریخ مدینہ دمشق ۵۵: ۰۷۳ )
مکحول نے زہری کے بارے میں لکھا ہے: ﴿أفسد نفسہ بصحبتہ الملوک﴾
زہری نے بادشاہوں کی ہم نشینی کی وجہ سے اپنے کو خراب کر ڈالا ۔(سیر اعلام النبلاء ۵:۹۳۳ )
محمد بن اشکاب کہتے ہیں : ﴿کان جندیا لبنی اُمیۃ ﴾ زہری بنو امیہ کا سپاہی بنا ہوا تھا.(تاریخ الاسلام : ۰۴۱، حوادث سال ۱۲۱ )
خارجہ بن مصعب کہتے ہیں: ﴿کان صاحب شرط بنی امیۃ ﴾ زہری بنو امیہ کے ساتھ معاہدہ کر چکا تھا .(میزان الاعتدال ۱:۵۲۶ )
اسی طرح کہا گیا ہے کہ : ﴿کان یعمل لبنی امیۃ ﴾(معرفۃ علوم الحدیث نیشاپوری :۵۵؛ تاریخ دمشق ۵۵: ۰۷۳ )...﴿وکان مندیل الامرائ ﴾.(حوالہ سابق )۔
اللھم صلی علی محمد و آل محمد
نمازِ جنازہ نہ پڑھے جانے پر ابو طالب پر کفر کے فتوے
اگر آپ نے دیکھنا ہے کہ بنی امیہ کے ناصبی سلف کس حد تک اہلسنت کی کتب حدیث میں گھس چکے ہیں، تو اسکے لیے ذیل کی روایت دیکھیں کہ جس کے متعلق دعوی ہے کہ یہ “صحیح” روایت ہے۔
جناب ابو طالب پر کفر کے فتوے لگانے کے لیے یہ بہانہ بھی کیا جاتا ہے کہ رسول (ص) نے انکی نماز جنازہ نہیں پڑھی۔
بلکہ بنی امیہ کے ٹکسالوں سے “صحح حدیث” کے نام پر ایک ایسی روایت گھڑی گئی جو انتہائی گھٹیا اور غلیظ زبان جناب ابو طالب کے لیے استعمال کر رہی ہے۔روایت یہ ہے:
امام شافعی و امام احمد و امام اسحق بن راہویہ و ابوداؤد و طیالسی اپنی مسانید اور ابن سعد طبقات اور ابوبکر بن ابی شیبہ مصنف اور ابوداؤد و نسائی سنن اور ابن خزیمہ اپنی صحیح اور ابن الجارود منتقی اور مروزی کتاب الجنائز اور بزار و ابویعلٰی مسانید اور بیھقی سنن میں بطریقِ علی ابن ابی طالب سے روایت ہے :
قال قلت للنبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان عمّک الشیخ الضال قد مات قال اذھب فوار اباک
ترجمہ:
میں (علی ابن ابی طالب)نے حضورِ اقدس سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے عرض کی: یارسول اﷲ ! حضور کا چچا وہ بُڈھا گمراہ مرگیا ۔ (رسول نے کہا): جا، اسے دبا آ۔
کیا کوئی اہل ایمان تصور کر سکتا ہے کہ نبی کریم جو اخلاق کے اعلی ترین درجے پر فائز ہیں، وہ ایسی زبان اپنے چچا کے لیے استعمال کریں؟ اپنے سگے شفیق چچا کو تو چھوڑیئے، رسول اللہ کا اخلاق تو یہ ہے کہ وہ کسی دوسرے کے چچا کے بھی ایسے الفاظ استعمال نہیں کر سکتے۔
اور علی ابن ابی طالب کے منہ سے اپنے شفیق باپ کے لیے جو الفاظ استعمال کروائے ہیں، اسکے بعد اہل ایمان کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ یہ بنی امیہ کے شریر لوگوں کا کارستانی ہے۔
افسوس آج کے ان لوگوں پر ہیں جو اس بیہودہ روایت کو دیوار پر مارنے کی بجائے اسکا بطور “صحیح” روایت دفاع کر رہے ہوتے ہیں اور عذر پیش کرتے ہیں کہ یہ تو رسول (ص) اور علی ابن ابی طالب کا “جذبہ ایمانی” تھا جس کی وجہ سے وہ اپنے سگے باپ و چچا کو کافر اور دشمن خدا سمجھ کر ان برے الفاظ میں یاد کر رہے ہیں (دیکھئیے احمد رضا خانصاحب کا رسالہ “شرح المطالب فی مبحث ابی طالب “ جس میں انہوں نے یہ حوالے جمع کیے ہیں)
اس بیہودہ روایت کے مقابلے اہلسنت کتب میں یہ روایت موجود ہے جو واقعی رسول (ص) کے اخلاق کے مطابق ہے۔ امام اہلسنت علامہ ابن سعد یہ روایت نقل کرتے ہیں:
عبید اللہ بن ابو رافع نے امام علی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: میں (علی) نے رسول اکرم (ص) کو حضرت ابو طالب کی وفات کی اطلاع دی۔ آپ (ص) رو پڑے اور پھر فرمایا: "جاؤ اور انکو غسل اور کفن دے کر سپرد خاک کر دو۔ خدا انکی مغفرت کرے اور ان پر رحمت فرمائے۔" (حوالہ: ابن سعد، کتاب طبقات الکبری، جلد 1، صفحہ 105)
یہی بات واقدی نے بھی روایت کی ہے، مگر اس میں یہ فرق ہے کہ رسول اکرم (ص) نے ابو طالب کی وفات کی خبر سن کر شدید گریہ فرمایا اور پھر کہا جاؤ ۔۔۔۔ (حوالہ: اسنی المطالب صفحہ 21)
اور ان کی روایات یہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ (ص) اپنی والدہ کی قبر پر گئے تو گریہ کیا۔ مگر یہ کیا کہ اوپر روایت میں "جذبہ ایمانی" کے نام پر علی اور رسول (ص) کے منہ سے ابو طالب کے متعلق اتنی غلیظ زبان استعمال کروا رہے ہیں؟
نماز جنازہ بعثت کے دسویں سال تک فرض ہی نہیں ہوئی تھی
ان لوگوں کا کذب اُس وقت اور پکڑا جاتا ہے جب یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ وفاتِ ابو طالب علیہ السلام کے وقت شریعت کے مطابق نہ نمازِ جنازہ کا حکم تھا اور نہ سنت کے مطابق غسل و کفن وغیرہ دینے کا۔
امام اہلسنت امام برزنجی کا یہ قول اسنی المطالب کے صفحہ 35 پرتحریر ہے کہ:
رسول اللہ (ص) نے ابو طالب کی نماز جنازہ اس لیے نہیں پڑھی کیونکہ اس وقت تک نمازِ جنازہ مشروع ہی نہ ہوئی تھی۔
اور علامہ صائم چشتی صاحب نے اپنی کتاب "عیون المطالب فی اثبات ایمان ابی طالب میں یہ روایت نقل کی ہے:
رسول اکرم (ص) اپنے چچا حضرت ابو طالب کے جنازہ کے ہمراہ روتے ہوئے اور یہ فرماتے ہوئے جا رہے تھے کہ چچا خدا تعالی اپ پر رحم کرے اور آپ کو جزائے خیر دے۔ ؟اپ نے ہمارے حق میں کبھی کوئی تقصیر نہیں کی۔
ایمان ابو طالب کے ثبوت اور دلائل کے لیے علامہ عبداللہ خنیزی (مترجم سید ذیشان حیدر جوادی) کی کتاب “ابو طالب، مومنِ قریش " کا مطالعہ کریں۔
اللھم صلی علی محمد و آل محمد
ابو طالب علیہ السلام کا اللہ سے رسول (ص) کے چہرے مبارک کے وسیلے سے دعا مانگنا اور اللہ کا دعا قبول فرمانا
صحیح بخاری، استغاثہ کا بیان:
ہم سے عمرو بن علی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابو قتیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالرحمن بن عبداللہ بن دینار نے، ان سے انکے والد نے کہا کہ میں نے ابن عمر کو ابو طالب کا یہ شعر پڑھتے سنا تھا (ترجمہ) گورا انکا رنگ انکے چہرے کے واسطے سے بارش کی (اللہ سے) دعا کی جاتی ہے، یتیموں کی پناہ اور بیواؤں کا سہارا۔
حضرت ابوطالب علیہ السلام کس درجہ معرفت رسول کریم ص سے سرشار تھے مگر لعنت ہو ان بد عقلوں پر جو حضرت ابوطالب کی کہی ہوئی ان نعتوں کو پڑھنے کے بعد اب بھی آپ کو کافر کہتے ہیں۔
اس شعر میں گواہی ہے کہ ابو طالب علیہ السلام "اللہ سے دعا" کرتے تھے، اور اللہ انکی دعا قبول بھی کرتا تھا۔
جبکہ اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے کہ دعا ایمان والوں کی ہی قبول ہے جبکہ کافروں کے لیے سخت عذاب ہے۔
القرآن، سورۃ الشوری (42 نمبر سورہ)، آیت 26:
وَيَسْتَجِيبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَيَزِيدُهُم مِّن فَضْلِهِ وَالْكَافِرُونَ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ
ترجمہ: اور (اللہ) اُن لوگوں کی دعا قبول فرماتا ہے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے اور اپنے فضل سے انہیں (اُن کی دعا سے بھی) زیادہ دیتا ہے، اور جو کافر ہیں اُن کے لئے سخت عذاب ہے۔
چنانچہ یہاں ابو طالب علیہ السلام کے ایمان کی پہلی گواہی یہ ہے کہ وہ "اللہ" سے دعا کر رہے ہیں محمد (ص) کو وسیلہ بناتے ہوئے۔۔۔۔۔ اور آپ کے ایمان کی دوسری گواہی یہ ہے کہ اللہ انکی دعا کو قبول فرماتا ہے اور بارش بھیجتا ہے۔
اسی کو دیکھ کر بقیہ مسلمان اس "کافر" (معاذ اللہ) کی سنت پر عمل کرتے ہیں اور عبداللہ ابن عمر اس "کافر" (معاذ اللہ) کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اسی کے طریقے سے اللہ سے دعا کرتے ہیں۔
💥رسول (ص) کا عبدالمطلب کی اولاد ہونے پر فخر کرنا
صحیح بخاری جلد چہارم ص 349 باب السیہر و الجھاد میں ہے کہ آپ صہ نے فرمایا کہ میں نبی ہوں اس میں غلط بیانی کا کوئی شبہ نہیں میں عبد المطلب کی اولاد ہوں.
وعن أبي إسحق قال قال رجل للبراء يا أبا عمارة فررتم يوم حنين قال لا والله ما ولى رسول الله صلى الله عليه و سلم ولكن خرج شبان أصحابه ليس عليهم كثير سلاح فلقوا قوما رماة لا يكاد يسقط لهم سهم فرشقوهم رشقا ما يكادون يخطئون فأقبلوا هناك إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم ورسول الله صلى الله عليه و سلم على بغلته البيضاء وأبو سفيان بن الحارث يقوده فنزل واستنصر وقال أنا النبي لا كذب أنا ابن عبد المطلب ثم صفهم . رواه مسلم . وللبخاري معناه وفي رواية لهما قال البراء كنا والله إذا احمر البأس نتقي به وإن الشجاع منا للذي يحاذيه يعني النبي صلى الله عليه و سلم
اورحضرت ابو اسحٰق (تابعی ) روایت کرتے ہیں ( ایک موقع پر ) ایک شخص نے حضرت براء ابن عازب (صحابی ) سے پوچھا کہ اے ابوعمارہ کیا (کیا یہ سچ ہے کہ ) آپ لوگ غزوئہ حنین میں دشمن کے مقابلہ سے بھاگ کھڑے ہوئے تھے ؟حضرت براء نے جواب دیا نہیں خدا کی قسم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرگز پشت نہیں دکھائی تھی صرف اتنا ہوا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ نوجوان صحابہ کاجن کے پاس زیادہ ہتھیا ر نہیں تھے (اچانک ) ایک تیرانداز قوم (بنوہوازن ) سے مقابلہ ہوگیا ،اس کے لوگ ایسے (خطرناک ) تیرانداز تھے کہ ان کا تیر کوئی زمین پر نہیں گرتا تھا (یعنی نشانہ خالی نہ جاتا تھا ) ان لوگوں نے نوجوان صحابہ پر تیربرسانا شروع کیا تو ان کا کوئی تیرخطانہیں کررہا تھا ،اس وقت وہ نوجوان صحابہ دشمن کے سامنے سے ہٹ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگئے ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (اس وقت )اپنے سفید خچر (دلدل ) پر سوار تھے اور ابوسفیان ابن حارث (خچر کی لگام پکڑے ہوئے آگے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم (جنگ کا یہ پریشان کن نقشہ اور اپنے صحابہ کی سرآئیگی دیکھ کر ) خچر سے اترے اور اللہ تعالیٰ سے مدد اورفتح کی دعا کی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بآواز بلندیہ بھی فرمایا : میں نبی ہوں ، اس میں کچھ جھوٹ نہیں ہے میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں ۔اس کے بعد ( جب کہ اسلامی لشکر دشمن کے مقابلہ کے لئے از سر نو ہمت وولولہ کے ساتھ مستعد ہوا اور مذکورہ نوجوان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہوگئے تو ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مجاہدین کی صف بندی کی ۔ ( مسلم
مخالفین کی لاجک کے مطابق (معاذ اللہ) رسول ص اپنے رسول ہونے کی بجائے اپنے کافر دادا پر فخر کر رہے ہیں، استغفر اللہ۔
امید ہے مومنین کو ہماری یہ چھوٹی سی کاوش پسند آئی گی اسے اپنے مومن بھائیوں تک ضرور پہنچاے
bro apki es anthak mehnat aor lajawab dalail py ankhon sa ansooon nikal pary....mula basada ABU TALIB AS aor Ahl bait apko khushian dy ,kamyabian..........................................
ReplyDelete