💥معصومین علیہ السلام کی ولادت کے اثبات اور نزول و ظہور کی رد میں ایک تحریر💥
سب سے پہلے ایک اہم وضاحت کرنا چاہوں گا کہ ان لوگوں نے ہم پر جھوٹ باندھا ہے اور تحمت لگائی ہے کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ آئمہ کی ولادت ہماری طرح ہوتی ہے۔جبکہ ہم آئمہ کی پاک و پاکیزہ، طاہر و مطہر ولادت کے قائل ہیں اور اس آرٹیکل میں اس موضوع پر فرامین بھی پیش کئے جائیں گے۔ دوسری بات یہ کہ ان غالیوں نے ان علماء کی ایک فہرست دی ہے جن پر انہیں اعتبار ہے۔ وہ علماء یہ ہیں:
💥محمد بن حسن الحرعاملی، علامہ مجلسی، علامہ بحرانی، ملا محسن فیض کاشانی۔* آپ یہ نام یاد کر لیا۔ ہم اپنے اس آرٹیکل میں انہی علماء کے حوالہ جات کثرت سے دیں گے تا کہ یہ لوگ پھر بھاگ نہ سکیں۔"
💥بڑی مشہور کہاوت ہے کہ نیم حکیم خطرہ جاں ----اسی طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ نیم ذاکر خطرہء ایماں----میں ذاکر با عمل کی بات نھیں کررھا بلکہ ایسے ذاکر کی بات کررہاہوں جسنے کسی مکتب کا کبھی رخ نھیں کیا لیکن خود کو منبر رسول ص پہ بیٹھنے کے قابل سمجھتا ہے اور نہ صرف لاابالی گفتگو کرتا ہے ساتھ ہی ساتھ الفاظ کا استعمال کرکے لوگوں کے ایمان و عقیدہ سے کھیلتا ہے -----اور اسطرح شیعوں میں تفرقہ بازی ,انجمن سازی,اور گروپ ،پارٹیاں بن جاتی ہیں
اور افسوس تو ان مومنین پر ہوتا ہے جو ان نیم ذاکروں کے الفاظ کا شکار ہوجاتے ہیں اورانہیں کی غلط باتوں کو اپنا عین عقیدہ وایمان سمجھ بیٹھتے ہیں ------آج کل فتنہ پرور لوگ شیعیت میں ایک لفظی بحث چھیڑے ہوئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ معصوم کی ولادت نھیں بلکہ نزول اور ظھور ہوتا ہے ولادت تو ہم انسانوں کی ہوتی ہے
آئییے دیکھتے ہیں کہ کیا انکا عقیدہ درست ہے یا نھیں ؟
سب سے پہلے تو ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان تفرقہ آور لوگوں کا ظہور یا نزول سے کیا مطلب ہے۔ یہ ٹوپی باز حضرات کہتے ہیں کہ معصومین(ع) کی ولادت نہیں ہو سکتی اور نہ ہی وہ اپنے اجداد کے اصلاب میں ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ اپنی امّہات (ماؤں) کے شکموں میں ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کی ولادت ہوتی ہے۔ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ معصومین(ع) آسمان سے ڈائریکٹ نازل ہوتے ہیں اور شکموں اور ارحام میں نہیں ہوتے۔ ان کے باطل عقیدے کی دلیل میں کوئی صریح حدیث نہیں ہے، البتہ قرآن کی ایک آیت میں جہاں نور کے نزول کی بات کی گئی ہے وہاں وہ نور سے مراد آئمہ(ع) لیتے ہیں جبکہ قرآن کے حکم کے مطابق یہاں نور سے مراد قرآن پاک ہے جو رسول اللہ(ص) کے ساتھ ہدایت کے لئے نازل کیا گیا۔ اور اگر آئمہ(ع) مراد بھی ہیں تو اس حساب سے کہ وہ قرآن کی جیتی جاگتی تفسیر ہیں
💥احادیث کی طرف جانے سے پہلے ہم اس نظریہ کے نقصانات کی طرف اشارہ کرینگے
(1) ﺟﺐ ﻭﻻﺩﺕ ﮐﺎ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮨﻮﮔﺎ ﺗﻮ ﺷﮩﺎﺩﺕ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮨﻮﮔﺎ ﺍﻭﺭ جو معصومین کی زیارتگاہیں (مثلا کربلاونجف ) ﺍﻧﮑﻮ ﺍﯾﮏ ﺻﺮﻑ ﻋﻼﻣﺘﯽ ﻧﺸﺎﻥ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺟﺎﺋﮕﺎ،
ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺟﺐ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﮩﯿﺪ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ان قبروں اور زیارتگاہوں میں آخر کون دفن ہے ؟؟؟
(2)دوسرا نقصان یہ ہے کہ ظہورونزول کے قائل افراد کو زیارت وارثہ کا انکار کرنا پڑے گا کیونکہ زیارت وارثہ میں معصوم نے فرمایا -
اشھد انک کنت نورا فی الاصلاب الشامخۃ والارحام المطھرۃ
میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ بلندترین اصلاب اور پاکیزہ ترین ارحام میں نور الہی بن کر رہے
یا اسی طرح
اشھد ان الائمۃ من ولدک کلمۃ التقوی
اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپکی اولاد کے امام سب کلمہ تقوی ہیں---------
یہ بات یاد رھے کہ صلب,رحم اور اولاد کا تعلق ولادت سے ہوتا ھے جہاں ظہور و نزول ہو وھاں ان الفاظ کا استعمال نھیں کیا جاتا لہذا اس عقیدے کو ماننے کے لئے زیارت وارثہ کا انکار کرنا ضروری ہوجائے گا
(3)رجب کی معصوم سے مروی دعا کا انکار کرنا پڑے اسلئے کہ اس دعا میں بھی معصوم کے لئے لفظ ولادت استعمال کیا گیا ہے
شیخ نے روایت کی ہے کہ ناحیہ مقدسہ سے شیخ ابوالقاسم کے ذریعے سے رجب کی دنوں میں پڑھنے کے لیے یہ دعا صادر ہوئی۔
اَللّٰھُمَّ إنِّی ٲَسْٲَ لُکَ بِالْمَوْلُودَیْنِ فِی رَجَبٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ الثَّانِی وَابْنِہِ
عَلِیِّ بْنِ مُحَمَّدٍ الْمُنْتَجَبِ، وَٲَتَقَرَّبُ بِھِمَا إلَیْکَ خَیْرَ الْقُرَبِ،
اے مبعود! ماہ رجب میں متولد ہونے والے دو مولودوں کے واسطے سے سوال کرتا ہوں جو محمد (ع)بن علی ثانی ﴿امام محمد (ع)تقی﴾اور ان کے
فرزند علی (ع) بن محمد (ع)﴿امام علی نقی(ع)﴾ بلند نسب والے ہیں ان دونوں کے واسطے سے تیرا بہترین تقریب چاہتا ہوں---------
(4) ﺟﺐ ﻭﻻﺩﺕ ﮐﺎ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮨﻮﮔﺎ ﺗﻮ ﺷﮩﺎﺩﺕ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮨﻮﮔﺎ اور جب شہادت کا انکار ہوگا ﺗﻮ ماننا پڑے گا کہ امام کو ﺷﮩﯿﺪ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ
ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﻟﮩٰﺬﺍ ﻇﺎﻟﻤﯿﻦ ﮐﻮ ﺑﺮﯼ ﺍﻟﺬﻣﮧ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ
(5) · ﻭﮦ ﺗﻤﺎﻡ ﺯﯾﺎﺭﺗﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺩﻋﺎﺋﯿﮟ ﺟﻮ ﻣﻌﺎﺭﻑ ﻭ ﻋﻘﺎﺋﺪ ﺳﮯ بھرﺮ ﭘﻮﺭ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ
ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﻟﻌﻦ ﺫﮐﺮ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ ﺍﻧﺴﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ گا اسلئے کہ جب کسی نے شہید ہی نھیں کیا ہے تو لعن و طعن کیوں ؟؟؟
(6) ﺟﺐ ﺍﺋﻤﮧ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﻮ ﻧﺴﻞ ﺳﺎﺩﺍﺕ کہاں سے وجود میں آگئی ؟؟کیا تمام سادات کا بھی ظہور ہوا ہے ؟یا یہ ﺍﯾﮏ ﺑﻨﺎﻭﭨﯽ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﮍﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ لذا اس عقیدے کے ماننے والے کو ﻧﺴﻞ ﺳﺎﺩﺍﺕ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ کرنا پڑے گا
(7) · ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽؑ ﺣﻀﺮﺕ فاطمہ زھرا س ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺎﻡ ﺯﻣﺎﻧﮧ عج ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ جو ﺭﻭﺍﯾﺎﺕ وارد ہوئی ہیں
ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﻭﺍﻟﺪﮦ ﺳﮯ ﺍنکے ﺑﻄﻦ ﻣﯿﮟ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ----ان سب روایات سے انکار کرنا پڑے گا
(8),جو معصوم کے ظہور کا عقیدہ رکھتے ہیں انکو عید میلاد النبی ص کا انکار کرنا پڑے گا
دنیا کے تمام مسلمان خواہ شیعہ ہوں یا اھلسنت تمام فرقے نبی کی ولادت کو عید میلاد النبی کے نام سے یاد کرتے ہیں کسی نے بھی آپکی ولادت کو نزول یا ظہور سے یاد نھیں کیا ھے
لفظ مولید کا مصدر ,ولد, ایک عربی لفظ ہے۔ جس کے معنی تولید، یا جنم دینا، یا وارث کے ہیں۔
عصری دور میں مولد یا مولود لفظ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادتِ مبارکہ کو کہتے ہیں۔
میلاد النبی کے دیگر نام مختلف ممالک میں:
عید المولِد النبوی - ولادتِ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم (عربی)
عیدِ میلاد النبی - ولادتِ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم (اردو)
عیدِ میلاد النبی - (بنگلادیش، سری لنکا، مالدیپ, جنوبی بھارت)
مولدالنبی - (مصری عربی)
المولد - تیونس عربی (تیونسی عربی)
مولود صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم (عربی)
مولد النبی : (عربی)
مولید الرسول : : (ملائی)
مولید نبی : (انڈونیشیائی زبان)
مولود نبی : – (ملیشیائی)
مولیدی : – (سواحلی زبان, ھاوسا زبان)
مولودِ شریف : – (Dari / اردو)
مولود این-نبووی ایشریف : - (الجیری)
موولِدِ شریف / مولُت شریف : (ترکی زبان)
مولود / موولِد : – (بوسنین)
میولید : (البانوی)
میلادِ پیمبرِ اکرم : (فارسی)
مولود : (جاوانیس)
نبی جیانتی / مہا نبی جیانتی : (سنسکرت زبان, جنوبی ہند کی زبانیں).
یعنی کسی بھی زبان والے نے نبی اکرم کی ولادت کو ظہورونزول سے یاد نھیں کیا ھے بلکہ ولادت ہی سے یاد کیا ہے جو سب سچے مسلمانوں کا عقیدہ ہے اب جو لوگ ظہور مانتے ہیں وہ پہلے صدیوں سے چلتی آرہی عید میلادالنبی کا انکار کریں اور اس کا نام تبدیل کرکے عید ظھورالنبی رکھیں
(9)-امام علی ع کی ایک ایسی فضیلت جسمیں ان کا کوئی ثانی نھیں یعنی
امام علی کے لقب مولود کعبہ سے انکار کرنا ہوگا ------جبکہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ھے کہ جناب فاطمہ بنت اسد نے کعبہ کے پاس کھڑے ہوکر فرمایا---
وبهذا المولود الذي في أحشائي الذي يكلّمني ويؤنسني بحديثه، وأنا موقنة أنّه إحدى آياتك ودلائلك لمّا يسّرت عليَّ ولادتي-----
اور تجھے اس مولود کا واسطہ کہ جو میرے بطن میں ھے جو مجھ سے باتیں کرتا ھے میری تنہائی میں مجھ سے گفتگو کرتا ہے مجھے یقین ھے یہ تیری نشانیوں میں سے ایک نشانی اور دلائل میں سے ایک دلیل ھے اسنے مجھ پر ولادت کو آسان بنادیا ہے (ـ الأمالي للطوسي: 706)
اسکے علاوہ تمام شعراء عرب نے امام کی آمد کو ولادت سے ہی یاد فرمایا ہے جیساکہ ,,1سید حمیری رح نے کہا
ولدته في حرم الإله وأمنه ** والبيت حيث فناؤه والمسجد
بيضاء طاهرة الثياب كريمة ** طابت وطاب وليدها والمولد
2یا شیخ حسین نجفی قدس سرہ نے فرمایا
جعل الله بيته لعلي ** مولداً يا له عُلا لا يضاهى
لم يشاركه في الولادة فيه ** سيّد الرسل لا ولا أنبياها
(1مناقب آل أبي طالب: 23.
3ـ الغدير 6/29.)
اھلسنت کے بڑے علماء، جیسے ابن صباغ مالکی 1،گنجی شافعی 2 شبلنجی 3 اور محمد بن ابی طلحہ شافعی 4 کہتے ہیں:
”لم یولد فی الکعبة احد قبلہ“۔
”حضرت علی علیہ السلام سے پہلے کوئی بھی کعبہ میں پیدا نہیں ہوا تھا۔
. ,1،الفصول المہمہ، ص۱۴۔
2. کفایة الطالب، ص۳۶۱۔
3. نور الابصار، ۷۶۔
4. مطالب السوٴل، ص۱۱۔
لہذا جابجا تمام لوگوں نے امام علی کے لئے ولادت کا ہی استعمال کیا ھے
(10)- ﺍﮔﺮ ﻭﻻﺩﺕ ﮐﻮ ﻇﮩﻮﺭ ﮐﮯ ﻟﻔﻆ ﺳﮯ ﺑﺪﻝ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ
ﻧﻘﺼﺎﻥ ﯾﮧ ﮨﻮﮔﺎ ﮐﮧ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟ ﺍﻣﺎﻡ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﮐﯽ ﻇﮩﻮﺭ ﮐﯽ ﺟﻮ
ﺧﺼﻮﺻﯿﺖ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ
آج تک جتنے علماء گذرے ہیں انہوں نے امام زمانہ عج کی ولادت کے بارے میں بحث کی ھے کہ کیا امام پیدا ہوئے ہیں یا نھیں یا بعد میں پیدا ہونگے جبکہ اکثر اھل تسنن مانتے ییں کہ آپکی ولادت ہوچکی ھے جیسا کہ
ابن خلکان م ۶۸۱ھ لکھتا ھے:
ابوالقاسم محمد ابن حسن عسکری ابن علی ھادی ابن محمد جواد مذکورہ بالا شیعوں کے بارہ اماموں میں سے بارھویں امام ھیں کہ ان کا مشھور لقب ”حجت﷼“ ھے۔۔۔ان کی ولادت جمعہ کے دن ۱۵/شعبان ۲۵۵ھ کو ھوئی ھے
لیکن ظھور کے بارے میں بے شمار احادیث مروی ہیں کہ آپکا ظھور آخری زمانے میں ھوگا لہذا اگر کچھ لوگ یہ مانتے ہیں کہ معصوم کا نزول یا ظہور ہوتا ہے انکو ماننا پڑے گا کہ امام زمانہ ابھی پیدا نھیں ھوئے ہیں اسلئے کہ احادیث میں آخری زمانے کی پیشنگوئی ہوئی ہے اور اگر کوئی اس بات کو نھیں مانتا تو وہ ان احادیث کا انکار کرے یا پھر یہ مانے کہ معصوم کی ولادت ہی ہوتی ھے نزول و ظہور نھیں
(11) کتب معتبرہ کا انکار ----
کیونکہ اھل تشیع کی تمام کتابوں میں معصومین ع کے لئے ولادت کا استعمال ہوا ہے بعض علماء نے تو باقاعدہ اپنی کتابوں میں ائمہ کی ولادت کے باب تک قائم کئے ہیں لہذا معصوم کے ظھور کے معتقد افراد کو تمام کتب شیعہ کا انکاری ہونا پڑے گا
آئیے اب چند روایات پیش کرکے اپنی بات کو ختم کرتا ہوں ---
شیخ کلینی نے "اصول کافی" کی دوسری جلد میں باقاعدہ ایک باب بنایا ہے جس کا نام ہے: "بَابُ مَوَالِيدِ الْأَئِمَّةِ" یعنی "کیفیت ولادت آئمہ(ع)"۔ گویا ہمیشہ سے شیعوں میں جو لفظ مستعمل رہا ہے وہ ولادت کا ہی رہا ہے، یہ بعد میں آنے والے اتنے عقلمند ہو گئے جو معرفت کی ایسی باتیں درک کر لیتے ہیں جن کو ان سے قبل کسی نے درک نہیں کیا ہوتا۔
اس باب کی پہلی حدیث ہے جو کافی لمبی چوڑی ہے جس میں ابوبصیر روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک سال امام صادق(ع) کے ساتھ حج کیا تو راستے میں ابواء کے مقام پر امام موسی کاظم(ع) کی ولادت ہوئی۔ اس میں خود ابو بصیر بھی بار بار ولادت کا لفظ استعمال کر رہے ہیں اور امام(ع) بھی۔ جب امام صادق(ع) واپس آئے تو اصحاب نے مبارکبادی دی تو امام(ع) نے بتایا کہ جب یہ مولود پیدا ہوا تو اس نے اپنا ہاتھ زمین پر رکھا اور آسمان کی طرف رخ کیا، پھر امام(ع) نے بتایا کہ یہ رسول اللہ(ص) اور ان کے تمام جانشینوں کی علامت ہوتی ہے۔ امام(ع) پھر بتاتے ہیں کہ کیسے آئمہ(ع) کا نطفہ قرار پاتا ہے لیکن ہم اس پوری حدیث کا ذکر نہیں کریں گے کیونکہ یہ کافی طولانی حدیث ہے، امام(ع) پھر فرماتے ہیں:
وَ إِذَا سَكَنَتِ النُّطْفَةُ فِى الرَّحِمِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَ أُنْشِئَ فِيهَا الرُّوحُ بَعَثَ اللَّهُ تـَبـَارَكَ وَ تـَعـَالَى مَلَكاً يُقَالُ لَهُ حَيَوَانُ فَكَتَبَ عَلَى عَضُدِهِ الْأَيْمَنِ وَ تَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صـِدْقاً وَ عَدْلًا لا مُبَدِّلَ لِكَلِماتِهِ وَ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ وَ إِذَا وَقَعَ مِنْ بَطْنِ أُمِّهِ وَقَعَ وَاضِعاً يَدَيْهِ عَلَى الْأَرْضِ رَافِعاً رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ
اور جب امام کا نطفہ رحم مادر میں قرار پائے چار مہینے گزر جاتے ہیں تو اس میں روح پیدا کی جاتی ہے اور اللہ تبارک و تعالی ایک فرشتے کو مقرر کرتا ہوں جس کا نام حیوان ہے، جو (امام) کے دائیں بازو پر لکھتا ہے "وَ تَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صـِدْقاً وَ عَدْلًا لا مُبَدِّلَ لِكَلِماتِهِ وَ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ" اور جب وہ اپنے ماں کے بطن سے باہر آتا ہے تو اپنا ہاتھ زمین پر رکھتا ہے اور اپنا سر آسمان کی طرف کرتا ہے۔
اصول كافى جلد 2 صفحه 225 روايت 1
مـُحـَمَّدُ بـْنُ يـَحـْيـَى عـَنْ مـُحـَمَّدِ بـْنِ الْحـُسـَيْنِ عَنْ مُوسَى بْنِ سَعْدَانَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْقـَاسـِمِ عـَنِ الْحـَسـَنِ بـْنِ رَاشـِدٍ قـَالَ سـَمـِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تـَعـَالَى إِذَا أَحـَبَّ أَنْ يـَخـْلُقَ الْإِمـَامَ أَمَرَ مَلَكاً فَأَخَذَ شَرْبَةً مِنْ مَاءٍ تَحْتَ الْعَرْشِ فَيَسْقِيهَا أَبـَاهُ فـَمـِنْ ذَلِكَ يـَخـْلُقُ الْإِمـَامَ فـَيـَمـْكـُثُ أَرْبـَعـِيـنَ يَوْماً وَ لَيْلَةً فِى بَطْنِ أُمِّهِ لَا يَسْمَعُ الصَّوْتَ ثُمَّ يَسْمَعُ بَعْدَ ذَلِكَ الْكَلَامَ فَإِذَا وُلِدَ بَعَثَ ذَلِكَ الْمَلَكَ فَيَكْتُبُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ وَ تـَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صِدْقاً وَ عَدْلًا لا مُبَدِّلَ لِكَلِماتِهِ وَ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ فَإِذَا مَضَى الْإِمَامُ الَّذِى كـَانَ قـَبـْلَهُ رُفـِعَ لِهـَذَا مـَنـَارٌ مِنْ نُورٍ يَنْظُرُ بِهِ إِلَى أَعْمَالِ الْخَلَائِقِ فَبِهَذَا يَحْتَجُّ اللَّهُ عَلَى خَلْقِه
حسن بن راشد کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق(ع) کو کہتے سنا "اللہ تبارک و تعالی جب امام کو خلق کرنا چاہتا ہے تو ایک فرشتے کو حکم دیتا ہے کہ ایک شربت عرش کے نیچے سے لے کر امام کے والد کو پلائے۔ پس امام کی (جسمانی) خلقت اس شربت سے ہے۔ پھر چالیس شب و روز (امام) اپنی ماں کے شکم میں ہے اور اس دوران وہ کچھ سن نہیں سکتا، اور پھر ان کے کان سننے کے لئے کھل جاتے ہیں۔ اور جب ولادت ہوتی ہے تو اسی فرشتے کو مقرّر کرتا ہے کہ اس کی آنکھوں کے بیچ میں لکھے وَ تـَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صِدْقاً وَ عَدْلًا لا مُبَدِّلَ لِكَلِماتِهِ وَ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ۔ اور پھر امام کو نور کا ایک مینار عطا کیا جاتا ہے جس سے وہ بندوں کے اعمال دیکھتا ہے اور جس کے ذریعے اللہ اپنے بندوں پر حجت تمام کرتا ہے۔
اصول كافى جلد 2 صفحه 228 روايت 2
💥 قرآن پر ایک نظر:
*1*. حضرت زکریا (ع) فرماتے ہیں:
*و انی خفت الموالی من وراء ی وکانت امراتی عاقرا فھب لی من لدنک ولیا۔*
"اور میں (اپنے مرنے کے بعد) اپنے وارثوں سے سہما جاتا ہوں (کہ مبادا دین کو برباد نہ کریں) اور میری بیوی (ام کلثوم بنت عمران)بانجھ ہے پس تو مجھ کو اپنی بارگاہ سے ایک جانشین (فرزند) عطا فرما۔" *(سورہ مریم آیت 5)*
اب یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ا ن لوگوں کاظہور ہوتا ہے تو پھر اس میں کیا مسئلہ تھا کہ ان کی بیوی بانجھ تھیں ؟
*2. فحملتہ فانتبذت بہ مکانا قصیا۔ فا اجاء ھا المخاض الی جذع النخلتہ۔۔ ۔ ۔(سورہ مریم آیت 22۔23)*
"غرض لڑکے کے ساتھ وہ آپ ہی حاملہ ہو گئیں۔ پھر اس کی وجہ سے لوگوں سے الگ دور کے مکان میں چلی گئیں (پھر جب جننے کا وقت قریب آیا) تو درد زہ انہیں ایک کھجور کی جڑمیں لے آیا۔"
یہ واقعہ حضرت مریم (ع) کا ہے۔ آپ لوگ دیکھیں کہ یہاں پر اللہ نے *حمل* کا لفظ استعمال کیا ہے اور درد زہ کا بھی ذکر کیا ہے۔ اب اگر حضرت عیسی کی ولادت نہ ہوتی بلکہ ظہور ہوتا آسمانوں سے تو پھر یہ حمل اور درد زہ کے الفاظ کے کیا معنی ہیں ؟
*3. حملتہ امہ کرحا و وضعتہ کرھا۔ (سورہ الاحقاف آیت 15)*
"اس کی ماں نے رنج کی ہی حالت میں اس کو پیٹ میں رکھا۔"
یہ آیت حضرت امام حسین (ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے با فرمان امام صادق (ع)۔
ملاحظہ کریں
*1. الکافی، شیخ کلینی، جلد 1، صفحہ 464 طبع بیروت،*
*2۔ تفسیر صافی، شیخ محسن کاشانی، جلد 3، صفحہ 317 طبع بیروت،*
*3۔ تفسیر نورالثقلین، شیخ عبد العلی جمعہ، جلد 7، صفحہ 419 طبع لاہور، **
*4۔ جلاء العیون، علامہ مجلسی، صفحہ 479 طبع تہران۔*
اس آیت میں اللہ نے *"حمل"* کا بھی لفظ استعمال کیا ہے اور ساتھ میں *"ماں کے پیٹ"* کے الفاظ بھی ہیں۔ یعنی کہ اگر آپ عقیدہ ظہور رکھتے ہیں تو پھر امام حسین (ع) کی شان سے یہ آیت گئی افسوس !
💥چند مزید احادیث کا فیصلہ
سب سے پہلے ہم یہاں پر وہ احادیث نقل کریں گے جن میں آئمہ نے فرمایا ہے کہ ہم اپنی ماؤں کے صلب میں ہوتے ہیں۔
حضرت امام جعفر صادق (ع) کے ایک انتہائی قابل قدر صحابی امام موسی کاظم (ع) کی ولادت کا واقعہ اس طرح بیان کرتے ہیں:
*1۔ذکرت انہ سقط من بطنھا حین سقط و اضعا یدیہ علی الارض۔*
"جب وہ بطن سے جدا ہوئے تو اپنے دونوں ہاتھ زمین پر رکھے اور سر آسمان کی طرف اٹھایا۔"
*(الکافی، شیخ کلینی، جلد 1، صفحہ 385 طبع بیروت)*
یہ ایک طویل واقعہ ہے اور اس میں یہ اتنے بڑے صحابی امام بار بار ولادت کا لفظ بھی استعمال کر رہے ہیں اس کے علاوہ امام نے حمل کا لفظ بھی استعمال کیا ہے۔
*2۔* حضرت امام جعفر صادق (ع) ہی فرماتے ہیں:
*فیمکث فی الرحم اربعین یوما لا یسمع الکلام ثم یسمع الکلام بعد ذلک۔*
"امام چالیس دن رات اس طرح شکم مادر میں رہتا ہے وہ کسی کی آواز نہیں سنتا اور اس کے بعد وہ آواذ سننے لگتا ہے۔"
*(الکافی، شیخ کلینی، جلد 1, صفحہ 387، طبع بیروت)*
*3*۔ حضرت امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں:
*الاوصیاء اذا حملت بھم امہاتھم اصابھا فترۃ شبہ الغشیہ*
"جب اماموں کی مائیں حاملہ ہوتی ہیں تو ان کو ایک قسم کی غشی سی ملتی جلتی لاحق ہوتی ہے۔"
*(الکافی، شیخ کلینی، جلد 1, صفحہ 387 طبع بیروت)*
*4۔* حضرت امام علی رضا (ع) امام کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ امام کی جملہ صفات میں سے ایک صفت یہ ہے کہ :
*واذا وقع علی الارض من (بطن) امہ وقع علی راحتیہ رافعا صوت بالشہادۃ*
"شکم مادر سے جب زمین پر آئے گا تو اپنی ہتھیلیوں کے سہارے بیٹھے گا اور شہادتین کے لئے اپنی آواز بلند کرے گا۔"
*(خصال، شیخ صدوق، صفحہ 528 طبع قم، احتجاج, شیخ طبرسی، صفحہ 509 طبع قم، معانی الاخبار، شیخ صدوق، صفحہ 102 طبع قم)*
یہ چیز امام کی صفت ہے اور اگر آپ اس صفت کا انکار کر رہے ہیں تو پھر امامت کیا رہ جائے گی ؟
*5۔* حضرت امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں:
*فا ان الامام یسمع الکلام فی بطن امہ*
"امام شکم مادر میں آواز سنتا ہے۔"
*(بصائر الدرجات، شیخ صفار، صفحہ 543 طبع قم،بحار، علامہ مجلسی، جلد 25 صفحہ 431 طبع قم)*
*6۔* حضرت امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں:
*لا تتکلمو ا فی الامام فان الامام یسمع الکلام وھو جنین فی بطن امہ*
"امام کے مقام و منزلت کے بارے میں گفتگو نہ کریں کیونکہ امام وہ ہوتے ہیں جو شکم مادر میں بھی سنتے ہیں۔"
*(بصائر الدرجات، شیخ صفار، صفحہ 564 طبع قم، تفسیر الصافی, شیخ محسن کاشانی، جلد 1 ص 497 طبع بیروت)*
بصائر الدرجات میں امام کے اسی قسم کے *11* فرامین ہیں اس باب میں جب کہ ہم نے صرف دو کا ترجمہ آپ کی خدمت میں پیش کیا ہے۔
*7۔* کتاب *علل الشرائع* میں ایک پورا باب ہے جس کا نام ہے :
*"العلۃ التی من اجلھا لم یتکلم النبی بالحکمہ حین خرج من بطنہ امہکما تکلم عیسی"*
"وہ سبب جس کی بنا پر رسول اللہ (ص) نے ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتے ہی کلام کیوں نہیں کیا جیسا کہ عیسی نے کیا۔" *(باب 70, صفحہ 79 طبع قم)*
اس باب میں بھی پوچھنے والے نے رسول اللہ کے لئے شکم مادر کے الفاظ ہی استعمال کئے ہیں جب کہ رسول اللہ نے اسے روکا نہیں۔
*8۔* حضرت امام علی ابن ابی طالب (ع) کی ولادت کے وقت ان کی والدہ جناب فاطمہ بنت اسد نے جو دعا فرمائی وہ اس طرح تھی:
*ربی انی مومنہ بک و بما جاء من عندک من رسل و کتب مصدقہ بکلام جدی ابراہیم فبحق الذی بنی ھذا البیت و بحق المولود الذی فی بطن لما یسرت وعلی ولادتی*
"خدا وندا میں ایمان لائی ہوں تجھ اور ان چیزوں پر جو تیرے رسول لائے اور ان کتابوں پر جو مصدقہ ہیں میرے جد ابراہیم کی پس واسطہ اس کے حق کا جس نے اس گھر کو بنایا اور اس مولود کے حق کا واسطہ جو میرے شکم میں ہے میرے اوپر ولادت کی سختی کو آسان کر۔"
*(مناقب ابن شہر آشوب، جلد 2، صفحہ 173 طبع بیروت، امالی صدوق صفحہ 195 طبع قم، الدمعتہ الساکبہ، شیخ بہائی، جلد 1, صفحہ 180 طبع لاہور)*
*9۔* آئمہ سے مروی زیارت وارثہ میں آئمہ (ع) کو اس طرح یاد کیا گیا ہے:
*اشھد انک کنت نورا فی الاصلاب الشامخۃ والارحام المطھرۃ*
"میں گواہی دیتا ہوں بے شک آپ وہ نور ہیں جو بلند مرتبہ صلبوں اور پاک و پاکیزہ رحموں میں منتقل ہوتا آیا۔"
*(مفاتیح الجنان، شیخ عباس قمی، صفحہ 794 طبع تہران)*
قارئین ہم نے آپکی خدمت میں آیات اور فرامیں حاضر کئے ہیں جن میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ آئمہ نے بارہا یہی فرمایا ہے کہ وہ اصلاب میں منتقل ہوتے ہیں ہمارے پاس اس موضوع پر اور بھی بہت سے فرامین ہیں لیکن طوالت کے خوف سے ہم انہیں یہاں پر نقل نہیں کر رہے۔
اب ہم آپ کی خدمت میں چند ایسے فرامین پیش کریں گے جن میں مولود کا لفظ آئمہ نے اپنے لئے استعمال فرمایا ہے نہ کہ ظہور کا۔ جو فرامین ہم نے اوپر پیش کئے ہیں ان میں بھی آئمہ نے اپنے لئے مولود کا لفظ ہی استعمال کیا ہے لیکن ان کے علاوہ ہم یہاں پر صرف اسی پر ہی فرمان پیش کریں گے۔
*10*۔ امام زمان (عج) کے نائب خاص علی بن محمد سے روایت ہے کہ:
*ولد الصاحب علیہ السلام للنصف من شعبان*
"امام زمان (عج) کی ولادت نصف شعبان میں ہوئی۔"
*(اکمال الدین، شیخ صدوق، صفحہ 430 طبع قم)*
*11۔* حضرت امام جعفر صادق (ع) کے معتبر صحابی ابو بصیر کہتے ہیں:
*کنت مع ابی عبدللہ فذکر شیئنا من امر الامام اذا یولد قال۔ ۔ ۔ ۔*
"ابوبصیر کہتے ہیں کہ میں امام ابوعبدللہ کے ساتھ تھا تو امام کی ولادت کے بارے میں کسی چیز کا ذکر ہوا تو فرمایا۔ ۔ ۔"
*(بصائر الدرجات، شیخ صفار، صفحہ 603 طبع قم)*
*12*۔ حضرت امام حسین (ع) کی ولادت کے موقعے پر ایک فرشتہ فطرس کو شفا ملنا ۔ رسول اللہ نے فطرس کو فرمایا کہ شفا حاصل کرنے کے لئے یہ عمل انجام دو:
*فمسح بھذا المولود*
"اس مولود کے جسم سے اپنے پر کو مس کرو۔"
*(الخرائیج، شیخ راوندی، جلد 1، صفحہ 252 طبع قم، امالی صدوق، 201، جلاء العیون، علامہ مجلسی، صفحہ 477 طبع تہران، اثبات الھداۃ, شیخ حر عاملی، جلد 4, صفحہ 45 طبع بیروت)*
*13۔* حضرت امیر المومنین امام علی (ع) کی زیارت میں ہے:
*اسلام علیک یا من ولد فی الکعبہ (مفاتیح الجنان، شیخ عباس قمی، صفحہ 700 طبع تہران)*
*14۔ الھم انی اسالک بالمولود دین فی رجب محمد بن علی ثانی ۔ ۔ ۔*
*(مفاتیح الجنان، شیخ عباس قمی، صفحہ 268 طبع تہران و بحار الانوار وغیرہا)*
*15*۔ امام حسین (ع) کی ولادت کے دن دعا جو تعلیم ہوئی:
*الھم انی اسالک بحق المولود فی ھذا الیوم الموعود۔ ۔ ۔*
*(مفاتیح الجنان، شیخ عباس قمی، صفحہ 319 طبع تہران)*
*16.* حضرت امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں:
*"ایک مرتبہ بشار امام جعفر صادق (ع) کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا کہ یہاں سے نکل جا. تو ملعون ہے. میں تیرے ساته ایک چهت کے نیچے جمع نہیں ہو سکتا. وہ اٹه کر چلا گیا تو آپ نے فرمایا کہ خدا اسے غارت کرے. اس نے خدا کی بهی توہین کی ہے. یہ شیطان ابن شیطان ہے. میرے شیعوں کو گمراہ کرنا چاہتا ہے. میں اللہ کا بندہ یوں. اصلاب و ارحام کی منزلوں سے گزرا ہوں. مجهے بهی ایک دن مرنا ہے اور میدان حشر میں جواب دینا ہے."*
*(حضرت امام جعفر صادق و مذاہب اربعہ، استاد اسد حیدر نجفی، صفحہ 247)*
امام (ع) یہاں پر خود فرما رہے ہیں کہ میں ارحام کی منزلوں سے گزرا ہوں۔ اور بشار پر لعنت فرما رہے ہیں۔ تھوڑا سوچئے کہ آٗئمہ (ع) کتنے حساس تھے ایسے موضوعات پر اور آج ہم ۔ ۔ ۔ ۔
یہاں پر ہم فرامین کا اختتام کر رہے ہیں کیونکہ پوسٹ ذیادہ طویل ہو گئی ہے جبکہ اسی موضوع پر ہمارے پاس بیسیوں فرامین اور بھی ہیں۔
اب ہم چند علماء جن کی یہ ملنگ لوگ بہت عزت کرتے ہیں (عوام کو پاگل بنانے کے کئے) ان کا ذکر کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی اپنی کتب میں آئمہ کے متعلق کیا ظہور کا باب باندھا یا پھر ولادت کا ؟
*1*۔ سب سے پہلے شیخ کلینی جن کی وفات امام زمان (عج) کی غیبت صغری میں ہوئی اور جن کی حدیث کی کتاب اب مذہب شیعہ کی پہچان بن چکی ہوئی ہے۔ آپ اپنی کتاب الکافی میں آئمہ کی ولادت کاباب اس طرح باندھتے ہیں:
*"باب موالید الائمہ" صفحہ 385 طبع بیروت۔*
اسی طرح آپ ہر امام کی ولادت کا باب اس طرح باندھتے ہیں:
*"باب مولد امیرالمومنین" صفحہ 452، باب "مولد الزھراء فاطمہ" صفحہ 458 وغیرہا)*
*2*۔ نہج البلاغہ جیسی مشہور و معروف کتاب کے مصنف *سید رضی خصائص امیرالمومنین صفحہ 39 طبع بیروت* میں لکھتے ہیں:
*ولد علیہ السلام بمکہ فی البیت الحرام ۔۔ ۔ ۔ ۔ولدہ ہاشمی مرتین ولا نعلم مولود ولد فی الکعبہ وغیرہ*
"امیر المونین خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے ۔ ۔ ۔آپ کی والدہ حضرت فاطمہ بنت اسد ہیں ۔ آپ پہلے ہاشمی ہیں جو سلسلہ نسب میں نجیب الطرفین ہیں، آپ کے علاوہ کوئی خانہ کعبہ میں پیدا نہیں ہوا۔"
*3۔* علامہ مجلسی نے بھی اپنی کتب میں یہی باب باندھے ہیں جیسے:
*"در بیان تاریخ ولادت و شھادت امیر المومنین" جلاء العیون صفحہ 288 طبع تہران۔*
اس کے علاوہ بحار الانوار میں بھی آپ نے یہی باب باندھے ہیں نہ کہ ظہور یا نزول کے باب۔ اس کے علاوہ علامہ مجلسی نے *حق الیقین جلد 1 صفحہ 54* پر آئمہ کے ارحام و اصلاب ہی لکھا ہے۔ اب آپ لوگ دیکھ لیں کہ جن علماء کا یہ لوگ نام لیتے ہیں وہ علماء بھی انکے ہم خیال نہیں ہیں۔ یہ لوگ عوام کو پاگل بنانے کے لئے صرف علماء کا نام لیتے ہیں۔
لفظ مولود کعبہ کا مطلب
میں اپنے مخالفین سے جب یہ کہتا کہ ہم صدیوں سے مولا علی علیہ السلام کو مولود کعبہ مانتے اور کہتے چلے آرہے ہیں لفظ مولود ولادت سے نکلا ہے یعنی مولودکعبہ کا مطلب جنکی ولادت کعبہ میں ہوئی یا جو کعبہ میں متولد ہوئے یہ بات اس چیز کی دلیل ہے کہ مولا علی علیہ السلام کی ولادت کعبہ میں ہوئی تھی نہ کہ ظہور ہوا تھا اول تو کعبہ میں طہور ہونا یا نزول ہونا کوئی بڑی بات ہی نہیں ہے کیوں کہ روزانہ ہزاروں فرشتوں کا وہاں نزول ہوتا ہے لیکن کسی انسان کی تو بات الگ ہے کسی فرشتے کی بھی مولا علی علیہ السلام کے علاوہ ولادت نہ تو مولا علی علیہ السلام سے پہلے کسی کی ہوئی نہ ہی قیامت تک کسی کی ہوگی اور اصل فخر کی بات ہی یہی ہے کہ جو گھر کا وارث ہوتا ہے اسکی ولادت اس گھر میں ہی ہوتی ہے۔ اگر مولا علی کا ظہور یا نزول ہوا ہوتا تو پھر یہ واقعہ اظہارِ کعبہ یا نزول فی الکعبہ کہلاتا۔
مولا علی علیہ السلام سے حضرت ابو طالب علیہ السلام کا رشتہ کا جواز
ہم حضرت ابوطالب علیہ السلام کو مولا علی علیہ السلام کا والد تصور کہتے ہیں اور جب آپ کے ایمان پر بحث کرتے ہیں تو سب سے پہلے جو دلیل دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ جب بھی ہمارے مولا کسی جنگ میں اپنے مخالف کے سامنے اپنا تعارف کراتے تو بڑے فخر سے کہتے میں ہوں علی ابن ابی طالب اگر نعذوباللہ حضرت ابو طالب کافر ہوتے تو کوئی تو سامنے والا طنزاََ یہ کہتا کہ اپنے والد کا ذکر اتنے فخر سے کیوں کر رہے ہو وہ تو خود کافر تھے۔ لفظ والد بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ کی ولادت ہی ہوئی تھی ۔ والد ،ولد والدہ یہ سب ولادت ظاہر کرتے ہیں جسکی ولادت ہوتی ہے وہ ولد کہلاتا ہے اور اسکے ہی والد اور والدہ ہوتے ہیں جب کے ظہور کیلئے والد اور والدہ کی ضرورت نہیں ہوتی جیسا کہ ہمارے زمانے کے امام علیہ السلام کی ولادت ہوچکی ہے انکے والد اور والدہ دونوں موجود تھے لیکن اب جب انکا ظہور ہوگا تو انکے والد اور والدہ کا ہونا ضروری نہیں ہے۔
بی بی فاطمہ بنت اسد کیلئے دیوار کا شق ہونااور انکی دعا
جب ہم مولا علی علیہ السلام کی ولادت کا واقعہ بیان کرتے ہیں تو انکی ایک یہ شان بھی بیان کرتے ہیں کہ جب بی بی مریم علیہ السلام حاملہ نہیں تھیں تو بیت المقدس میں رہتی تھیں لیکن جب آپ کے رحم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام آگئے تو ارشاد باریِ تعالٰی ہوا کہ اے مریم اب اس جگہ سے نکل جاؤ یہ اللہ کا گھر ہے کوئی زچہ خانہ نہیں ہے لیکن جب بی بی فاطمہ کے شکم میں مولا علی کا نور پروان چڑھا تو اللہ نے انکے لئے اپنے خاص گھر خانہ کعبہ کی دیوار شق کردی اور یہ شگاف آج تک موجود ہے۔اگر ہم ظہور کو صحیح مانیں تو پھر ہم کو اس معجزے سے انکار کرنا ہوگا اور اپنی صدیوں پرانی دلیلیں خیر باد کہنی ہوں گی جس سے ہم اپنے مخالفین کو لاجواب کرتے چلے آئے ہیں۔روایت ہے کہ جب مولا علی علیہ السلام کی ولادت کا وقت قریب آیا تو آپ کی والدہ ماجدہ بی بی فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہاخانہ کعبہ کے قریب آئیں اور اس میں داخل ہونا چاہا لیکن وہ مقفل پایا آپ سلام اللہ علیہا بیت اللہ کے سامنے کھڑی ہوگئیں اور غلاف کعبہ کو پکڑ کر دعا کی کہ اے اللہ میں تجھ سے اس گھر اور جس نے اسکو بنایا ہے اور اس مولود کا واسطہ دیتی ہوںجو میرے بطن میں ہے، جو مجھ سے باتیں کرتا ہے اور اپنی باتوں کے ذریعے مجھے اُنس و محبت عطا کرتا ہے میرا یہ یقین ہے کہ وہ تیری ذات کی آیات اور دلائل میں سے ایک دلیل ہے مجھ پر اس مرحلہ ولادت کو آسان فرما آپ کی دعا مستجاب ہوئی اور بیت اللہ میں ایک در بن گیا اور آپ اس میں داخل ہوگئیں۔اگر مولا علی علیہ السلام کا ظہور ہوا تھا تو پھر آپ جب بی بی فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا کے بطن سے پیدا ہی نہیں ہوئے تو انکے لئے دیوار کعبہ شق کیوں ہوئی اور وہ آپ کی والدہ کیوں کہلائیں۔ اس طرح تو ہم کو مولا علی علیہ السلام کے اس معجزے کا بھی انکار کرنا ہوگا کہ جب انہوں نے عالم شیر خواری میں کلہ اژدر کو چیر دیا تھا اور آپکی والدہ نے جب یہ دیکھا تو ارشاد فرمایا کہ میرا بیٹا تو حیدر ہے پھر ہم کو آپ کے اس لقب کا بھی انکار کرنا ہوگا۔
لیکن قارئین آپ خود مشاہدہ کریں کہ ان تمام روایتوں جگہ جگہ ولادت کا ہی لفظ استعمال ہوا ہے، اور کہیں پر بھی نزول یا ظہور کا لفظ موجود نہیں ہے۔ بلکہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آئمہ(ع) کی ظاہری جسمانی خلقت ماں کے بطن میں ہی ہوتی ہے اور امام(ع) بھی اسی طرح تخلیق کے تمام مراحل سے گزرتا ہے جیسا کہ قرآن میں بیان کیا گيا ہے۔ البتہ ان کی ارواح پہلے سے خلق شدہ ہوتی ہیں اور ظاہر روایات سے یہی حاصل ہوتا ہے کہ ماں کے بطن میں چار ماہ گزرنے کے بعد ان کی روح ان کے جسم میں منتقل کر دی جاتی ہے۔ ان تمام احادیث سے ظہور یا نزول کا عقیدہ رکھنے والوں کی بے پناہ تردید ہوتی ہے
ظہور کے لئے جن آیات کا یہ لوگ حوالہ دیتے ہیں ان میں آئمہ کی ولادت کا کوئی تذکرہ ہی نہیں ہے اور نہ ہی کسی امام نے ان آیات کی تفسیر میں کوئی ایسی بات فرمائی ہے۔ جب کے ہم نے آپ کی خدمت میں متعدد فرامین پیش کئے ہیں جن میں ولادت کا لفظ ہی استعمال کیا گیا ہے۔ لہذا یہ ان لوگوں کی تفسیر بالرائے ہے جسے آئمہ (ع) نے سختی سے روکا ہے۔اگر اسی طرح آیات کی من مانی تفسیر کرنا شروع ہو گئے تو پھر آئمہ کا کیا فائدہ ؟ آپ حضرات خود ان آیات کی تفسیر پڑھیں اور پھر دیکھیں کہ کیا ان آیات کا کوئی ربط ہے ان نظریات سے جن کا یہ لوگ پرچار کر رہے ہیں اور ان آیات کو استعمال کر رہے ہیں۔ اور پھر ایک طرف اللہ قرآن میں ہی معصومین کے لئے حمل اور درد ذہ کے الفاظ استعمال کر رہا ہے اور دوسری طرف ظہور کے لفظ استعمال کر رہا ہے یہ کیسا تضاد ہے قرآن میں ؟ اور پھر آئمہ (ع) اتنے کثیر فرامین میں ظہور کا نہیں بلکہ ولادت کا ہی ذکر کر رہے ہیں۔ آپ لوگ سوچیں کہ آپ لوگوں کی ان باتوں سے امامت پر کیسی آنچ آرہی ہے۔
قارئین ہم نے آپ کی خدمت میں قرآن ، احادیث اور علماء (جن میں غالیوں کے پسندیدہ بھی شامل ہیں)کے بیانات سے ثابت کر دیا ہے کہ آئمہ کی ولادت ہوتی ہے ان کا ظہور نہیں ہوتا اور اگر یہ لفظ غلط ہوتا تو پھر آئمہ اور ان کے اصحاب اور علماء یہ لفظ کیوں استعمال کرتے ؟ آپ سب نے دیکھ لیا کہ ولادت کو لفظ استعمال کرنے پر کسی کو مقصر کہنا یا پھر گالی دینے کا مطلب یہ کہ آپ نعوذباللہ آئمہ اور ان کے اصحاب کو غلط کہہ رہے ہیں اور ان کی توہین کر رہے ہیں۔ کیا آج کل کے لوگ 1400 سال بعد دین کو ان ہستیوں سے ذیادہ جانتے ہیں ؟ اور پھر اگر ہم ان کے ظہور کا عقیدہ مان لیں تو کیا آپ جانتے ہیں کہ پھر ہمیں شہادت حضرت محسن (ع) جن کا ذکر ہم 1400 سال سے کر رہے ہیں ان سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا کیونکہ جب یہ ہستیاں اپنی والدہ کے شکم میں ہی نہیں ہوتیں تو پھر کسی کے دروازہ گرانے سے حضرت محسن کیسے شہید ہو گئے ؟ اگر ہم نے اپنے ذہن سے ہی دیکھنا ہے تو پھر آئمہ کو اسی خاک میں دفن کرنا جہاں پر سب کو دفن کیا جاتا ہے یہ بھی آئمہ کی توہین ہوئی۔ آئمہ کو تو دفنانا ہی نہیں چاہئے تھا بلکہ انہیں تو ہیرے و جواہرات کے صندوقوں میں رکھنا چاہئے تھا اور پھر ظہور کا لفظ امام زمان (عج) کے لئے خاص ہے اگر ہم اس لفظ کو ہر امام کے لئے استعمال کرنے لگ گئے تو پھر امام زمان (عج) کی خصوصیت ہی ختم ہو جائے گی۔
آج کل کچھ وہابی نما بریلووں نے رسالے لکھنے شروع کئے ہیں کہ امام علی (ع) مولود کعبہ نہیں ہیں۔ ان کے جواب میں بریلوی علماء نے ہی شاندار تحقیقات کر کے ان کا ناطقہ بند کر دیا ہے جیسا کہ پیر عظمت علی شاہ صاحب کی کتاب اس موضوع پر اس کے علاوہ مولود کعبہ نمبر وغیرہا۔ دوسری طرف ہم جو صدیوں سے یہ عقیدہ رکھتے آرہے ہیں آج تبدیل کر کے ظہور کعبہ کہہ رہے ہیں۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہم نے آل محمد کو اپنے ذہن کے مطابق سمجھ لیا ہے اور جب لوگوں کو روکا جائے تو کوئی کہتا ہے کہ ایک لفظ تبدیل کرنے سے کیا ہو جاتا ہے۔ انہی لوگوں سے سوال ہے کہ آپ لوگوں نے دیکھ لیا کہ ایک لفظ تبدیل کرنے سے کتنے فضائل سے ہاتھ دھونے پڑیں گے، آئمہ کی صفات سے ہاتھ دھونے پڑیں گے اور کس قدر حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ آپ مانتے حسین (ع) کو ہیں لیکن دلیل یہ دیتے ہیں کہ ایک لفظ سے کیا فرق پڑھ جاتا ہے۔ کیا آپ کے نزدیک آئمہ کی یہی حیثیت ہے کہ آپ ان کے فرامین کو اس طرح چھوڑیں ؟ کیا ایک لفظ کو تبدیل کرنا آپ کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا ؟ بعض لوگ ڈر کے مارے ظہور کہتے ہیں کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ اگر انہوں نے ولادت کہا تو لوگ لعن کریں گے۔ افسوس ہے کہ آپ اس حسین (ع) کے چاہنے والے ہیں جس نے اپنا سب کچھ اس راہ میں لٹا دیا اور ایک آپ ہیں آج جو حق کو صرف اس لئے چھوڑ رہے ہیں کہ آپ کو لوگوں کی مخالفت کا ڈر ہے !!
آخر میں آپ سب کے لئے ایک انتہائی سبق آموز اور عبرت انگیز واقعہ پیش کر رہا ہوں۔
*"امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں کہ گزشتہ زمانے میں ایک شخص حلال طریقے سے دنیا کمانا چاہتا تھا لیکن اس پر قادر نہ ہوااور حرام طریقے سے دنیا کمانے لگ گیا۔ لیکن اس پر بھی قادر نہ ہوا اس کے پاس شیطان نے آ کر کہا اے شخص تم نے دنیا کو حلال طریقے سے کمانا چاہا مگر کامیاب نہ ہو سکے اور جب حرام سے کمانا چاہا تب بھی کامیابی نصیب نہ ہوئی کیا میں تجھے ایسا طریقہ نہ بتاوں جس سے تیرا مال ودنیا ذیادہ ہو جائےاور تیرے چاہنے والوں کی بھی کثرت ہو کہنے لگا کیوں نہیں غرور بتاو۔ شیطان نے کہا ایک نیا دین ایجاد کر لو اور لوگوں کو اس کی طرف دعوت دو اس شخص نے ایسا ہی کیا ۔ لوگ جوق در جوق اس کے پاس آنے لگے اور س کی اطاعت کرنے لگے اور اس کی دنیا بھی آباد ہو گئی۔ پھر جب اس نے غور و فکر کیا تو خود سے کہنے لگا میں نے بہت برا کیا ہے۔ ایک نیا دین بھی گھڑا ہے اور لوگوں کو اس دین کی دعوت بھی دی ہے اور اب توبہ کا ایک ہی راستہ ہے کہ جب لوگ میرے پاس آئیں تو انہیں واپس بھیج دوں۔ بارحال جونہی اس دعوت پر لبیک کہنے والے اس کے پاس آتے تو وہ کہتا جس چیز کی طرف میں نے تمھیں دعوت دی ہے وہ میں نے خود گھڑا ہے۔ وہ کہتے تم جھوٹ بول رہے ہوتمھارا دین حق ہے صرف اتنا ہوا کہ تم اس دین میں شک کر بیٹھے اور اب واپس لوٹنا چاہتے ہو ۔ اس وقت اس نے زمین میں میخ ٹھونک کر اس کے ساتھ زنجیر باندھ لی اور اپنی گردن میں ڈال دی اور کہا کہ جب تک مجھے خدا معاف نہیں کرے گا میں اسے اپنی گردن سے نہ نکالوں گا۔ خدا نے اپنے انبیا میں سے ایک نبی کی طرف وحی کی کہ اس کے پاس جا کر کہو کہ خدا کہتا ہے مجھے اپنی عزت کی قسم اگر تم مجھے اتنا پکارو کہ تمھارے بدن کے جوڑ الیحدہ ہو جائیں میں تب بھی تمہیں معاف نہ کروں گا البتہ جنہوں نے تمھارا دین اختیار کیاتھا اور اب مر چکے ہیں انہیں زندہ کر کے اس دین سے واپس لوٹا سکتے ہو تو تب میں تمہیں معاف کروں (یعنی تمھاری معافی نا ممکن ہے)"*
*(ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، شیخ صدوق، صفحہ 555ِ طبع قم)*
آپ سب اس فرمان پر غور کریں کہ دین میں کوئی نئی چیز ڈالنا یا تحریف کرنا کتنا بڑا نا قابل معافی جرم ہے۔
اگر آپ کو ہماری چھوٹی سی محنت پسند آئے تو مومنین کو بھی پڑھائیاپنے آپ کو صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھیں۔ آئمہ نے اپنے خون سے اس مذہب کو سینچا ہے لہذا آپ لوگ آئمہ کی محنتوں پر اس طرح پانی نہ پھیریں.
احسنتم
ReplyDelete