Wednesday, February 21, 2018

مولانا اسحاق کی میں نہ مانو کا جواب - ولادت امام علی (ع) در کعبہ


مولا علی (ع) کی  ذات گرامی وہ ذات  ہے کہ آپ (ع) پوری امت کے لئے روحانی باپ کا مقام رکھتے ہیں ، علامہ راغب اصفہانی نے مفردات القرآن کے شروع میں نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے امام علی (ع) سے ارشاد فرمایا ، اے علی (ع) میں اور تو دنوں اس امت کے (روحانی) باپ ہیں . لٰٰہذا مولانا اسحاق کے بیان سننے کے بعد ہر مسلمان کو دکھ پہنچا ہے . ہم نے علمائے اھل سنت و اھل حدیث کے معتبر اور جید علماء کے اقوال سے ثابت کیا تھا کہ مولا علی (ع) کی ولادت خانہ کعبہ میں ہوئی اور مکمل دلائل سے مولانا اسحاق کا جواب دیا تھا . عظیم محدثین اور  صاحب مشاہدہ اولیاء کرام نے مولا علی (ع) کو مولود کعبہ مان لیا ہے لیکن مولانا اسحاق نے نہ صرف انکار بلکہ اپنی بات پر آڑ جانے سے  ان کا  تعصب واضح طور پر عیاں ہے. ہم نے  امید کی  تھی کہ مولانا اسحاق فیصل آبادی اپنی بات سے رجوع کریں گے مگر انھوں نے مزید علمی جہالت کا ثبوت دیتے ہوئے ، ولادت علی (ع) در کعبہ پر مضحاکہ خیز شبہات وارد کئے ہیں . ہم انشاء اللہ ، مولانا اسحاق کے  تمام غیر علمی شبہات کا علمی دلائل سے تعاقب کریں گے

شبہ نمبر 1

مولانا کہتے ہیں کہ ابن حجر عسقلانی کا بیان تدریب الراوی میں اور محب الدین طبری کے بیان سے ثابت ہے کہ  صرف خانہ کعبہ میں حکیم پیدا ہوا اور کسی کی ثابت نہیں ولادت  کعبہ میں

ہمارا جواب

ہم یہ کہتے ہیں کہ مولانا نے پھر وہی جمعہ کے خطبے والی بات کو دھرایا ہے کہ ابن حجر عسقلانی اور محب الدین طبری نے حکیم کی ولادت کو کعبہ میں ماننا ہے ، معلوم نہیں کہ مولانا اپنی بات کو کیوں پھر دھرا رہے ہیں ، اگرچہ ابن حجر اور محب طبری نے حکیم کی ولادت کوماننا ہے مگر مولا علی (ع) کی کعبہ میں ولادت ابن  حجر سے پہلے حدیث کے شیوخ نے اپنی اپنی کتب میں درج کی ہے اور ابن حجر عسقلانی کے بعد آنے والے حدیث کے شیوخ ،  جن کے سامنے دونوں قسم کے اقوال یعنی مولا علی (ع) اور حکیم کی ولادت کے اقوال موجود تھے مگر انھوں نے مولا علی  (ع) کی ولادت در کعبہ میں ،، کے قول کو لیا اور حکیم کے ولادت کو نہیں ماننا . کیا مولانا اسحاق کے نزدیک یہ لوگ جنہوں نے مولا علی  (ع) کی ولادت کو خانہ کعبہ میں ماننا ہے ، جاہل ، بد دیانت ، گمراہ تھے جو صحیح اور ضعیف میں تمیز نہ کر سکے

شبہ نمبر 2

مولانا مزید کہتے ہیں کہ اگر فضیلت ہوتی تو نبی (ص) خانہ کعبہ میں پیدا ہوتے

ہمارا جواب

مولانا نے پھر وہی بات کو دھرایا ہے جس کا ہم اپنی پہلی ویڈیو میں جواب دے آئے تھے کہ خانہ کعبہ میں امام علی (ع) کا پیدا ہونا خصائص مرتضوی میں سے ہے . جس طرح حضرت علی (ع) کے خصائص میں ہے کہ مولا علی (ع) کو رسول اللہ (ص) جیسا سُُسر ملا مگر رسول اللہ (ص) کو ایسا شان والا سُسر نہیں ملا تو کیا اب یہاں رسول (ص) کی فضیلت کم ہوگئی . مولانا اسحاق اب صرف قیاس کے ذریعے سے غیر علمی شبہات وارد  کر رہے ہیں 

شبہ نمبر 3

مولانا کہتے ہیں کہ تلخیص مستدرک میں ذہبی نے مستدرک کی روایات کا تعاقب کیا ہے اور وہاں پر اس کا رد  کیا ہے

ہمارا جواب 

 فہد نامی لڑکے  جس نے ہمارے دلائل کو مولانا اسحاق تک پہنچایا تھا اس نے کہا کہ مولانا ، اُُس (یعنی مراد ہم ہیں ) نے تلخیص مستدرک کا حوالہ بھی نقل کیا ہے کہ ذہبی نے امام حاکم کے قول کو نقل کر کے اعتماد کیا ہے تو مولانا نے کہا کہ ہم تلخیص کو نکال لیں گے دیکھ لیں گے . اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مولانا نے پہلے تلخیص میں علامہ ذہبی کا قول نہیں دیکھا جو اب کہ رہے کہ ہم دیکھ لیں گے. جہاں تک رہی بات مولانا کی کہ ذہبی ، امام حاکم کا صرف قول نقل کر دیتے ہیں ،یعنی یہ دلیل نہیں کہ ذہبی بھی ولادت علی (ع)  کعبہ میں مان رہے ہیں ... ہم یہ کہتے ہیں کہ ذہبی نے اگر حاکم کی تردید کرنا ہوتی تو صاف صاف لکھ دیتے کہ حاکم کی غلطی ہے کیونکہ ذہبی نے تلخیص میں جہاں بھی موقع ہاتھ آیا امام حاکم کی کھلے  لفظوں میں مخالفت کی اور کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا . جیسے خود مولانا اسحاق نے کہا ہے کہ حاکم نے کہا کہ متواتر روایات سے ثابت ہے کہ رسول (ص) ختنہ شدہ پیدا ہوئے مگر  ذہبی نے تردید کی اور کہا کہ متواتر کا دعوی ٰٰ غلط ہے ، اس  پر کوئی صحیح روایت نہیں ہے . مگر یہی ذہبی ، ولادت علی (ع) در کعبہ میں حاکم کی موافقت کر رہا ہے اور حاکم کے قول کو خاموشی سے نقل کر دیا جس سے صاف ظاہر ہے کہ ذہبی بھی حاکم کی مخالفت نہیں کی بلکہ حاکم کے قول کو درست مان رہے ہیں . اگر انہوں نے تردید کرنی ہوتی تو صاف لکھ دیتے کہ حاکم نے غلط کہا ہے لیکن ہزار ہا مخالفت کے باوجود ذہبی یہ سمجھتے ہیں کہ حاکم امام المحدثین  ہیں . انہوں نے جو تواتر کا قول کیا ہے وہ سوچ سمجھ کر کیا ہے 

شبہ نمبر 4

جب فہد نامی لڑکے نے مولانا سے کہا کہ ہم نے ملا علی قاری کا قول بھی نقل کیا ہے کہ ملا علی قاری نے امام حاکم کے قول کو نقل کیا ہے تو مولانا اسحاق نے کہا کہ ملا علی قاری وغیرہ صرف ناقل ہیں ہم نے حدیث کے بڑے علماء (یعنی ابن حجر عسقلانی) کے اقوال بیان کر دیے ہیں 

ہمارا جواب

پہلی بات کہ مولانا اسحاق نے ملا علی قاری کی شخصیت کو  صرف ناقل قرار دے دیا اور کہا کہ ہم نے حدیث کے بڑے علماء کے اقوال نقل کر دیے . یہاں پر مولانا  اسحاق کا ملا علی قاری کی شخصیت کو غیر اھم جاننا ، نہایت بد دیانتی ہے کیونکہ ملا علی قاری کی شخصیت وہ ہے جس کو اھل حدیث عالم بھی مانتے ہیں .. جس کو ہم ابھی بیان کرتے ہیں . باقی رہا مولانا کا یہ بار بار بیان کرنا کہ حدیث کے بڑے عالم یعنی ابن حجر عسقلانی نے صرف حکیم کی ولادت کو ماننا ہے ، اس کا ہم ابتدا میں رد کر آئیں ہیں کہ اگر بقول مولانا اسحاق کہ حدیث کے  بڑے عالم نے انکار کیا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ حدیث کے بڑے بڑے علماء نے اقرار بھی تو کیا ہے کہ مولا علی (ع) کی ولادت خانہ کعبہ میں ہوئی اور اس فضیلت میں کوئی دوسرا شریک نہیں اور ان بڑے بڑے علماء میں امام حاکم ،  علامہ ذہبی ، ملا علی قاری ، شاہ ولی اللہ ،نواب صدیق حسن خان ، شاہ عبد العزیز محدث دہلوی ،  شیخ مومن شبلنجی ، علامہ مسعودی ، شیخ عبدالحق محدث دہوی وغیرہ شامل ہیں جنہوں نے مولا علی (ع) کی ولادت در کعبہ کو ماننا اور ابن حجر عسقلانی کے قول کو قبول نہیں کیا. اب کیا مولانا اسحاق کے نزدیک یہ لوگ جنہوں نے مولا علی  (ع) کی ولادت کو خانہ کعبہ میں ماننا ، حدیث کے بڑے عالم نہیں ہیں  اور  مزید یہ کہ مولانا کے نزدیک  حدیث کے بڑے بڑے  علماء صرف ابن  حجر عسقلانی اور محب طبری ہیں جب کہ ہمارے پاس حدیث کے بڑے بڑے علماء کے تقریبا``  60 سے اوپر اقوال موجود ہیں جو مولا علی (ع) کی ولادت کو خانہ کعبہ میں مانتے ہیں یعنی یہاں پر ولادت علی (ع) کی ولادت در کعبہ میں اجمع ہے اور متواتر اخبار بھی جبکہ مولانا کے پاس صرف مرسل خبر واحد موجود ہے جس کو وہ بار بار نقل کر رہے ہیں 

ملا علی قاری کا مقام ، علمائے اھل حدیث و اھل سنت کی  نظر میں 

نواب صدیق حسن خان اپنی کتاب اتحاف النبلاء المتقین ، ص 325 پر ملا علی قاری کے بارے میں اس طرح بیان کرتے ہیں 

ھو الجامع للعلوم العقلیہ و النقلیہ و المتضلع میں سنہ النبویہ واحد علماء الاعلام و جہاھیر اولی الحفظ و الافھام 

اسی طرح  الشخ محمد عابد السندی ملا علی قاری کے  بارے میں لکھتے ہیں 

الشیخ العلامہ ، البحر الفھامتہ ، الشیخ علی قاری

اسی طرح کثیر علماء اھل سنت و حدیث کے اقوال  موجود ہیں ملا علی قاری کی  توثیق  میں  

ملا علی قاری جیسے محقق و محدث نے امام حاکم کے قول پر اعتراض نہیں کیا . آج تک ہزاروں علمائے کرام اور محدثین عظام  مستدرک کا مطالعہ کرتے رہے ہیں کسی نے امام حاکم  کے اس قول کو غلط نہیں کہا  . مولانا اسحاق پہلے آدمی ہیں جنہوں نے  9 صدیوں گزرجانے کے بعد امام حاکم کو غلط کہا اور ان پر اعتراضات کیے ہم پوچھتے ہیں کیا اتنے بڑے محدثین علماء نے حاکم کی اس عبارت کو نہیں دیکھا تھا  


مولانا اسحاق کی علم حدیث سے جہالت

مولانا اسحاق کہتے ہیں کہ سبط ابن جوزی سے بڑا رافضی کون تھا. اس نے کتابیں لکھی شعیوں کے حق میں ، صحابہ کی مذمت میں ، سبط بہت نا مراد ، رافضی تھا ، اس کی موت پر لوگوں نے جشن منایا ، شکر ہے ایسا پلید مر گیا، بڑا پکا شیعہ تھا ، اس کا نانا امام ابن جوزی وہ سنی تھا ، سبط ابن جوزی کی  بہت مذمت آئی ہے ، ،،،،،،،،اس کے  بعد مولانا کہتے ہیں کہ حاکم بھی شیعہ تھے

جواب 

مولانا اسحاق سے ہم کو یہ امید نہیں تھی کہ وہ تعصب میں آکر علم حدیث کی تمام اصول کو پامال کرتے ہوئے علامہ  سبط ابن جوزی اور حاکم کو رافضی اور شیعہ قرار دیں گے . باالفرض اگر علامہ سبط ابن جوزی رافضی تھے تو کیا اصول حدیث میں کسی راوی کا رافضی ہونا مضر ہے? بالکل نہیں اھل سنت کے اصول حدیث میں اگر کوئی راوی شیعہ حتیٰٰ کہ رافضی بھی  ہو تو اس کی روایت کو رد نہیں کیا جائے گا . امام بخاری ومسلم نے اپنی صحیحین میں کافی رافضی اور شیعہ راویان سے احادیث لیں ہیں حتیٰٰ کہ امام مسلم کی صحیح کو کہا گیا کہ صحیح مسلم شیعہ راویوں سے پُُر ہے . چنانچہ ثابت ہوا کہ راوی کا شیعہ ہونا یا رافضی ہونا مضر نہیں ہے
اب رہا علامہ سبط ابن جوزی کی توثیق ، تو مولانا اسحاق نے اصول حدیث کے خلاف جاتے ہوئے ، علامہ سبط ابن جوزی کو رافضی ، نامراد ، وغیرہ قرار دیا حالانکہ علامہ سبط ابن جوزی کی بہت زیادہ توثیق اھل سنت کی کتب میں مروی ہے . اس میں سے ہم انشاء اللہ کچھ نقل کریں گے

ہم سب سے پہلے  شذرات الذهب في أخبار من ذهب  سے علامہ سبط ابن جوزی کی توثیق نقل کر رہے ہیں 

علامہ  ابن عماد حنبلی نے حوادث  654ھجری میں لکھتے ہیں 

اسی سال سبط ابن جوزی علامہ  واعظ مورخ شمس الدین ابو المظفر یوسف ابن فزعلی ترکی ثم بغدادی الھبیری الحنفی سبط ابوالفرج ابن جوزی نے  وفات پائی ، اسے اس کے نانا نے خود تعلیم دی اور ابن کلیب اور دیگر لوگوں سے تعلیم دلوائی . 600ھ کے چند سال بعد دمشق میں پہنچے اور وہاں وعظ شروع کیا. ان کے لطیف خصائل اور عمدہ وعظ کی وجہ سے انھیں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی. ان کی تفسیر 29 جلدوں میں ہے جو الجامع الکبیر کے نام سے موسوم ہے اور ان کی کتاب مراۃ الزماں ہم بامسمیٰٰ ہے اور ایک جلد مناقب ابوحنیفہ میں ہے . تدریس اور فتویٰٰ دیا کرتے تھے. بادشوں کی نظر میں قابل احترام تھے. ملک معظم نے انھیں مذہب ابوحنیفہ کی طرف پھیر لیا.....اگر ان کی کتاب مراۃ الزماں کے علاوہ کوئی اور کتاب نہ بھی ہو تو ان کی عظمت کے لئے کافی ہے. ...بیس ذی الحجہ منگل کی رات اپنے مکان واقع جبل الصالحیہ میں وفات پائی اور وہی  دفن ہوئے .  ان کے دفن کے وقت ملک ناصر بادشاہ شام موجود تھا. اللہ کی وسیع رحمت ہو ان پر

 شذرات الذهب في أخبار من ذهب// ج 7//ص 461





مومنین و مسلمین ، اب آپ خود ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ مولانا اسحاق نے کیسے دجل سے کام لیا ہے ، مولانا کہتے ہیں کہ سبط ابن جوزی نامراد ، رافضی ہے جبکہ علامہ ابن عماد حنبلی  کے نزدیک یہ سُُنی حنفی اور عظیم شان والے ہیں حتٰی کہ ابن عماد حنبلی ان کے لئے اللہ کی رحمت کی دعا کر رہے ہیں . اگر سبط ابن جوزی رافضی ہوتے تو ابن عماد حنبلی اس کا ضرور ذکر کرتے

اب ہم سبط ابن جوزی کی توثیق ایسے عالم کے قلم سے نقل کر رہے ہیں جس کو مولانا بھی رد نہیں کر سکتے اور وہ ہیں علامہ ابن کثیر

علامہ ابن کثیر ، سبط ابن جوزی کے متعلق لکھتے ہیں 

یوسف بن امیر حسام الدین قراد غلی بن عبداللہ عتیق الحنبلی الحنفی البغدادی  ، سبط ابن جوزی ، آپ کی ماں رابعہ ہے جو شیخ ابوالفرج بن جوزی الواعظ ک  بیٹی ہے ، آپ خوبصورت ، خوش آواز ، اچھے واعظ ، بہت اچھے فضائل اور تصانیف والے تھے .  آپ کی کتاب مرآۃ الزماں بیس جلدوں میں ہے ، جو بہترین تواریخ میں سے ہے ، جس  میں آپ نے اپنے نانا کی المنتظم کو نظم کیا اور اس پر اضافہ بھی کیا ہے اور زمانے تک اس پر ضمیمہ بھی لکھا ہے اور وہ  شاندار تواریخ میں سے ہے
ابن کثیر مزید آگے جا کر  لکھتے ہیں کہ سبط ابن جوزی عالم ،  فاضل ، دانا  ،  گوشہ نشین اور ارباب دول کے ناپسندیہ افعال  پر ملامت  کرنے والے تھے اور اپنے لباس میں میانہ روی اور مواظبت کے ساتھ مطالوہ کرنے ، علم سیکھنے  اور تالیف وتصنیف میں لگے رہتے تھے اور اھل علم و فضل کے ساتھ انصاف کرنے والے اور جہلاء سے الگ رہنے والے تھے . آپ کی مجلس وعظ کن اور آپ  کی  آواز خوبصورت اور اچھی تھی . اللہ کی رحمت ہو سبط ابن جوزی پر اور ان سے راضی بھی ہو

تاریخ ابن کثیر// ج 17//ص 344







سامعین و ناظرین کی معلومات کے لئے بتا دیا جائے کہ ابن کثیر وہ آدمی ہے جس کو اگر کسی بندہ کا شیعہ ہونا کا شک بھی ہوتا ، وہ اس  کو اپنی تاریخ میں لازمی لکھتا ہے مگر سبط ابن جوزی ، ابن کثیر کے نزدیک نہ صرف اچھا بلکہ عالم اور فاضل ہے .  اگر  یہ رافضی ہوتا  تو ابن کثیر اس کو ضرور بیان کرتا 

اب ہم ایک اور توثیق سبط ابن جوزی کی نقل کرتے ہیں اور اس توثیق   کو بیان کرنے والے  ہیں علامہ ذہبی 

علامہ ذہبی اپنی کتاب العبر میں لکھتے ہیں 

ابن جوزی العلامہ الواعظ المورخ شمس الدین نے اپنے جد ، ابن کلیب اور ایک جماعت سے حدیثیں سنیں ، 600 ھ کے بعد دمشق آئے اور وہاں وعظ و نصحیت کرنا شروع کیا ، اخلاق حمیدہ اور بیان میں جاذبیت کی وجہ سے ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا رہا ، انہوں نے تفسیر 29 جلدوں میں ،  مناقب ابوحنفیہ ایک جلد میں اور جامع کبیر کی شرح لکھی ہے ،  وہ درس و فتویٰٰ دیتے تھے اور جوانی میں حنبلی تھے . 25 ذی الحجہ کو وفات پائی ، وہ بادشوں کی نظر  میں بہت معزز و محترم تھے

العبر// ج 3// ص 274






علامہ ذہبی کے بیان سے ثابت ہوا کہ علامہ سبط ابن جوزی نہ صرف ایک مدرس تھے بلکہ صاحب فتویٰٰ بھی تھے. مومنین ومسلیمین آپ نے دیکھا کہ مولانا صاحب سبط ابن جوزی کو رافضی کہ رہے ہیں جبکہ علامہ ابن عماد ، ذہبی اور ابن کثیر وغیرہ کے نزدیک یہ حنفی بھی ہیں اور ابوحنیفہ کے مناقب پر انھوں نے ایک کتاب بھی لکھی ہے .  اب اگر سبط ابن جوزی شیعہ یا رافضی ہوتے تو مناقب انوحنیفہ کبھی نہ لکھتے

علامہ ذہبی نے اپنی تاریخ میں سبط ابن جوزی کو امام ، فقیہ ، تاریخ و سیرت میں علامہ قرار دیا ہے

تاریخ ذہبی //  ج 48//ص 183







الغرض علامہ سبط ابن جوزی کی توثیق بیان کرنے والے علماء کے بیانات کی طویل فہرست موجود ہے مگر ہم یہاں پر صرف مندرجہ بالا علماء کے بیانات پر ہی اکتفاء کرتے ہیں .  بالفرض اگر سبط ابن جوزی کو کسی نے رافضی بھی کہا ہو تو یہ جرح مردود ہے کیونکہ جمہور نے سبط ابن جوزی کی  توثیق اور اس کو سنی کہا ہے .  اب ایک طرف مولانا کی  مبھم سی جرح اور دوسری طرف محقق علماء کے اقوال سبط ابن جوزی کی توثیق کے متعلق .  فیصلہ سامعین و ناظرین پر چھوڑتے ہیں 


مولانا اسحاق نے نہ  صرف علامہ سبط ابن جوزی کو رافضی کہنے پر اکتفاء کیا بلکہ مولانا نے دجل سے کام لیتے ہوئے کہا کہ سبط ابن جوزی نے شیعوں کے حق میں کتابیں لکھیں 
اب ہم یہاں پر علامہ سبط ابن جوزی کی کتب کی فہرست نقل کرتے ہیں ، اس کے بعد ہم اپنا تبصرہ نقل کریں گے

صاحب کشف الظنون نے مندرجہ ذیل تالیفات سبط ابن جوزی بیان کی ہیں
  
اللوامع فی احادیث المختصر و الجامع 
التفسیر 
منتہی السئول فی سیرۃ الرسول 
ایثار الانصاف
تذکرۃ الخواص
مناقب ابی حنیفہ 
مراۃ الزمان 

مندرجہ بالا کوئی بھی کتاب ، شیعہ امامیہ کی نہیں ہے اور جہاں تک رہا تذکرۃ الخواص کا معاملہ تو  یہ کتاب ائمہ اھل بیت (ع) کی سیرت و مناقب پر ہے اور آئمہ  اھل بیت (ع) کی مدح وثناء اھل سنت نے بھی بیان کی ہے حتیٰٰ کہ امام نسائی نے امام علی (ع) کے خصائص پر خصائص علوی تحریر کی ہے

الحمد اللہ ! ہم نے علامہ سبط ابن جوزی کا سُُنی اور ثقہ ہونا  ثابت کر دیا ہے .  اب ہم آتے ہیں امام حاکم کی توثیق کی طرف

مولانا صاحب نے کہا کہ حاکم بھی شیعہ تھا ہم مولانا اسحاق سے کہتے ہیں کہ  مولانا بتائے ! اھل سنت و اھل حدیث کا کونسا عالم نہیں جس کو شیعہ نہ کہا گیا ہو ، شافعی کو رافضی کہا گیا ،  نسائی و بیہقی کو  شیعہ ، عبدالرزاق پر بھی شیعہ کی تہمت لگائی گی ،اھل حدیث علماء میں  نواب صدیق حسن خان ،  علامہ وحیدالزمان کو شیعہ اور تفضیلی شیعہ ہونے کے الزامات لگائے گے حتٰی کہ مولانا اسحاق !  آپ کو بھی رافضی اور شیعہ کہا گیا ، کیا آپ رافضی یا شیعہ ہوگئے ، اگر امام حاکم کو  بھی شیعہ کہا گیا تو  یہ کوئی نئی بات نہیں  ، جہاں پر امام حاکم کو شیعہ کہا گیا ہے وہاں پر علامہ ذہبی نے امام حاکم کو "الحافظ الکبیر ، امام المحدثین ، بہت بڑے حافظ اور بہت سی کتابوں کے مصنف کہا ہے  

تذکرۃ الحفاظ// ج 3//ص 1039






 نیز یہ بات ہم واضح کر آئے ہیں کہ  اھل سنت کے اصول حدیث میں شیعہ ، رافضی ہونا کوئی جرح نہیں ہے 

آخر میں ہم مولانا اسحاق فیصل آبادی کا اس بات کا جواب دیتے جائیں کہ مولانا کہتے ہیں کہ حاکم کا متواتر کا دعویٰٰ غلط ہے . ہم اس سلسلہ میں عرض کرتے ہیں کہ حاکم کو محدثین  نے حافظ الحدیث تسلیم کیا ہے . حافظ الحدیث وہ ہوتا ہے جسے ایک لاکھ احادیث مبارکہ اسانید و متون کے ساتھ یاد ہوں .  ایک لاکھ احادیث کو سند و متن کے ساتھ یاد کرنا اور ان کا عالم ہونا کوئی معمولی بات نہیں اس وقت شاید ہی  دنیا میں  کوئی ایسا شخص ہو

حاکم کی تعریف:  حاکم وہ محدیث ہوتا ہے جس  کو  تمام  احادیث مرویہ اسانید و متون کے ساتھ یاد ہوں اور راویوں کے پورے حالات جانتا ہو

امام کون ہے? امام وہ محدث ہے جو حدیث و فقہ اور تمام علوم دینیہ میں صاحب کمال ہو

امام حاکم  حافظ الحدیث بھی ہیں ،امام المحدثین بھی ہیں ، تمام علوم دینیہ کے ماھر اور جملہ احادیث مرویہ  کے حافظ ہیں کیا  اتنے بڑے امام کو تواتر کی تعریف  معلوم نہ تھی ? کیا وہ جانتے نہیں تھے کہ میری کتابوں پر لوگ اعتراض بھی کریں گے. جب اما م حاکم نے لکھ دیا کہ  تواتر سے ثابت ہے کہ  مولا علی (ع) کعبے میں پیدا ہوئے اتنے بڑے امام کا لکھ دینا ہی ثبوت کے لئے کافی ہے اور یہ بات اتنی مشہور و معروف تھی کہ امام  حاکم کو سند و ثبوت پیش کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی .  اتنے لوگ اس کو بیان کرتے تھے کہ ان لوگوں کا بیان ہی  ثبوت کےلئے  کافی تھا اس لئے امام حاکم نے فرمایا کہ جب ساری دنیا جانتی ہے کہ مولا علی (ع)  مولود کعبہ ہیں  تو اس کے باوجود مصعب نے کہا ہے کہ حکیم بن حزام کے علاوہ کوئی کعبہ میں پیدا  نہیں ہوا. یہ مصعب کی غلطی ہے
 مولانا اسحاق عجیب آدمی ہیں کہ امام حاکم کے تواتر کے دعویٰٰ کو نہیں مانتے . اس سے صاف پتہ چلتا  ہے کہ مولانا نسیان کا شکار ہوگئے ہیں . اللہ جانے ان سے کیا بے  ادبی ہوگئی ہے جس کی سزا ان کو مل رہی  ہے اور روز بروز گستاخیوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور خود تو  ڈوبے ہیں صنم تجھ کو بھی لے  ڈوبیں گے کہ مصداق ، دوسرے مسلمانوں کی  گمراہی کا سبب بھی بن رہے ہیں

Written By

Syed Hasni Al Halbi

No comments:

Post a Comment

صحیح حدیث امام علی ع کے فضائل اور بارہ آئمہ ع کے نام صحیح حدیث میں

﷽ یہ دو صحیح الاسناد احادیث ہیں ایک امام علی ع کے فضائل بزبان نبی کریم ﷺ اور ایک بارہ آئمہ ع نام سمیت ایک ہی حدیث میں (جس پر بعض اہل سن...