اللہ رب العزت کا یہ احسان عظیم ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو نوافل کے ذریعہ سے اپنا قرب بخشا ، نیز ان کو مغفرت کے اسباب عطا فرمائے . ان میں سے ایک نماز تسبیح جو کہ نماز جعفر طیار کے نام سے بھی مشہور ہے ، موجود ہے . یہ بڑی فضیلت والی نماز ہے ، روزانہ پڑھیں ، ہفتہ میں یا مہینہ میں یا سال کے بعد یا زندگی میں ایک بار پڑھ لیں . اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت و برکت سے جھولی بھر لیں . اس نماز کا ثبوت اور طریقہ ملاحظہ کریں
محمد بن يعقوب، عن علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن ابن أبي عمير، عن يحيى الحلبي، عن هارون بن خارجة، عن أبي بصير، عن أبي عبد الله (عليه السلام) قال: قال رسول الله (صلى الله عليه وآله) لجعفر: يا جعفر، ألا أمنحك ؟ ألا اعطيك ؟ ألا أحبوك ؟ فقال له جعفر: بلى يا رسول الله، قال: فظن الناس أنه يعطيه ذهبا أو فضة فتشرف الناس لذلك، فقال له: إني اعطيك شيئا إن أنت صنعته في كل يوم كان خيرا لك من الدنيا، وما فيها وإن صنعته بين يومين غفر الله لك ما بينهما أو كل جمعة، أو كل شهر، أو كل سنة غفر لك ما بينهما تصلي أربع ركعات تبتدأ فتقرأ وتقول إذا فرغت: سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر، تقول ذلك خمس عشرة مرة بعد القراءة، فإذا ركعت قلته عشر مرات، فإذا رفعت رأسك من الركوع قلته عشر مرات، فإذا سجدت قلته عشر مرات فإذا رفعت رأسك من السجود فقل بين السجدتين عشر مرات، فإذا سجدت الثانية فقل عشر مرات فإذا رفعت رأسك من السجدة الثانية قلت عشر مرات وأنت قاعدقبل أن تقوم، فذلك خمس وسبعون تسبيحة في كل ركعة، ثلاث مائة تسبيحة في أربع ركعات، ألف ومائتا تسبيحة وتهليلة وتكبيرة وتحميدة إن شئت صليتها بالنهار، وإن شئت صليتها بالليل.
"جناب ابو بصیر (ر) سے اور وہ امام جعفر صادق (ع) سے روایت کرتے ہیں کہ فرمایا : رسول اللہ (ع) نے ایک بار جناب جعفر بن ابی طالب (ر) سے فرمایا : یا جعفر (ر) ! کیا میں تمھیں بخشش نہ دوں ، کچھ عطا نہ کرو اور کوئی تحفہ نہ دوں ? راوی کا بیان ہے کہ لوگوں نے خیال کیا کہ شاید رسول اللہ (ص) انہیں سونا یا چاندی دینا چاہتے ہیں ? چنانچہ تمام لوگ ادھر متوجہ ہوئے ، بالاخر رسول اللہ (ع) نے جعفر طیار (ر) سے فرمایا : میں تمھیں ایسی چیز عطا کرنے والا ہوں. اگر تم اسے ہر روز بجا لائو گے تو یہ تمھارے لئے دنیا و مافیہا سے بہتر ہوگی اور اگر دو روز کے درمیان بجا لائو گے تو ان کے درمیان کئے جانے والے تمھارے گناہ معاف ہوجائیں گے اور اگر جمہ کے دن یا ہر مہینہ یا ہر سال میں ایک دن بجالائو گے تو اس عرصہ کے دوران والے تمھارے گناہ معاف ہوجائیں گے اور وہ عمل یہ ہے کہ چار رکعت نماز بدو سلام (یعنی دو دو کر کے رکعت پڑھنی ہے ) پڑھو اور نماز شروع کر کے اور سورہ فاتحہ اور سورۃ سے فارغ ہو کر پندرہ بار تسبیحات اربعہ «سبحان الله والحمد لله ولا إله إلاّ الله والله أكبر» پڑھو ، پھر رکوع میں جائو تو دس بار یہی تسبیحات اربعہ پڑھو ، پھر رکوع سے سر اٹھائو تو پھر دس بار پڑھو بعد ازاں سجدہ میں جائو تو یہی ذکر دس بار کرو ، پھر سجدہ سے سر اٹھائو تو دس بار یہی تسبیحات پڑھو ، پھر دوسرے سجدہ میں جائو تو پھر دس بار یہی تسبیحات پڑھو ، جب اس سے سر اٹھائو تو پھر اٹھنے سے پہلے دس بار پڑھو یہی تسبیحات ، اس طرح ایک رکعت میں 75 تسبیحیں ہوجائیں گی ، پھر اسی طرح دوسری ، تیسری اور چھوتھی رکعت میں یہی طریقے سے پڑھو ، اس طرح چار رکعتوں میں کل تین سو مرتبہ تسبیح ہوجائے گی اور مجموعی طور ہر بارہ سو مرتبہ تسبیح ،تحمید ، تحلیل اور تکبیر ہوجائے گی . چاہو تو یہ نماز دن میں پڑھو اور چاہو تو رات میں پڑھو "
الوسائل 8 : 49/ أبواب صلاة جعفر ب 1 ح 1 و سندہ حسن
سند حدیث کی تحقیق :
مندرجہ بالا حدیث کی سند اس طرح ہے
محمد بن يعقوب، عن علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن ابن أبي عمير، عن يحيى الحلبي، عن هارون بن خارجة، عن أبي بصير، عن أبي عبد الله (عليه السلام)
محمد بن یعقوب کلینی (ر) : ثقتہ الاسلام ، ثقہ امامی
علی بن ابراہیم : ثقہ امامی
ابراہیم بن ہاشم القمی : ثقہ امامی
ابن ابی عمیر : ثقہ امامی
یحیی بن عمران الحلبی : ثقہ امامی
ھارون بن خارجہ : ثقہ امامی
ابوبصیر :ان کا نام لیث بن البختری تھا اور یہ ثقہ امامی ہیں
ابی عبد اللہ (ع) : امام جعفر صادق (ع) ، امام معصوم (ع)
حدیث مبارکہ کے تمام رجال الحمداللہ ثقہ اور شیعہ امامی ہیں . اس طرح یہ روایت حسن یا صحیح کے درجہ کی قرار پاتی ہے .
سند حدیث کے حوالے سے فقہاء امامیہ کے اقوال
علامہ مجلسی (ر)نے اصول کافی شرح میں مندرجہ بالا حدیث کی سند کو حسن کہا ہے . (مراۃ العقول )
آیت اللہ کاظم یزدی (ر) کے نزدیک صلاۃ تسبیح پر متواتر اخبار موجود ہیں . (عروۃ الوثقیٰ )
آیت اللہ الخوئی (ر) کے نزدیک صلاۃ تسبیح پر آنے والے اخبار صحیح اور موثق درجہ کے ہیں (المستند في شرح العروة الوثقى)
متن حدیث کا خلاصہ
حدیث ابوبصیر (ر) کے متن کا خلاصہ درج ذیل ہے :
1. چار رکعتیں اس طرح پڑھی جائیں کہ دو دو رکعت کر کے پڑھے اور ہر رکعت میں سورہ فاتحہ اور ایک سورۃ پڑھی جائے .
2. پہلی رکعت میں قراءت کے بعد ، رکوع سے پہلے ، حالت قیام میں «سبحان الله والحمد لله ولا إله إلاّ الله والله أكبر» 15 دفعہ پڑھا جائے
3. رکوع میں یہی ذکر دس (10 ) مرتبہ پڑھیں
4. رکوع سے اٹھ کر 10 دفعہ پڑھیں
5. سجدہ اولیٰ میں دس دفعہ پڑھیں
6. دوسجدوں کے درمیان جلسہ میں دس دفعہ پڑھیں
7. دوسرے سجدے میں دس دفعہ پڑھیں
8. پھر سجدہ سے اٹھ کر بیٹھیں اور جلسہ استراحت میں دس دفعہ پڑھیں . (کل تسبیحات 75)
9 . دوسری ، تیسری اور چوتھی رکعتوں میں اسی طرح پڑھیں .
نماز تسبیح کے متعلق بعض ضروری مسائل
مسئلہ نمبر 1 : نماز جعفر طیار کا رات ، دن ، سفر اور حضر کی حالت میں پڑھنا جائز ہے .
"ذریح سے اور وہ امام جعفر صادق (ع) سے روایت کرتے ہیں کہ فرمایا: اگر چاہو تو نماز جعفر طیار رات میں پڑھو ، چاہو تو دن میں پڑھو ، چاہو تو سفر میں پڑھو اور چاہو تو اسے اپنے نوافل میں سے شمار کرو اور اگر چاہو تو اسے کسی قضا شدہ نماز کی ادا سمجھ کے پڑھو ."
الوسائل 8 : 57 / أبواب صلاة جعفر ب 5 ح 1 وسندہ صحیح
مسئلہ نمبر 2: اس نماز میں کسی سورت کا تعین نہیں ہے ، کوئی بھی سورت پڑھی جاسکتی ہے مگر افضل و مستحب ہے کہ پہلی رکعت میں سورہ حمد کے بعد سورہ إذا زلزلت ، دوسری رکعت میں والعادیات ، تیسری میں اذا جاء نصر اللہ اور چوتھی میں سورہ توحید کی تلاوت کی جائے .
حدیث معصوم (ع) کہ ابراہیم بن عبد الحمید امام موسیٰ کاظم (ع) سے روایت کرتے ہیں کہ فرمایا: "نماز جعفر طیار کی پہلی رکعت میں الحمد کے بعد سورہ إذا زلزلت ، اور دوسری رکعت میں والعادیات ، تیسری میں اذاجاء نصر اللہ اور چوتھی رکعت میں سورہ توحید پڑھی جائے . راوی نے عرض کیا: اس کا ثواب کیا ہے ? فرمایا : اگر اس کے ذمے عالج نامی (کثیر الرمل) ٹیلہ کی ریت کے ذروں کے برابر بھی گنا ہوں گے تو وہ سب معاف ہوجائیں گے . راوی کا بیان ہے کہ پھر امام (ع) بے میری طرف نگاہ کر کے فرمایا : یہ اجر و ثواب صرف تمھارے اور تمھارے اصحاب و احباب کے لیے ہے ."
الوسائل 8 : 54 / أبواب صلاة جعفر ب 2 ح 3 وسندہ معتبر
مسئلہ نمبر 3: مستحب کے ہر رکعت ثانی کے بعد رکوع سے قبل اور تسبیح کے بعد قنوت پڑھی جائے
تنبیہ : نماز تسبیح کی جماعت کروانا بدعت ہے کیونکہ نبی اکرم (ع) و اھل بیت (ع) کی سیرت سے اس کی جماعت ثابت نہیں ہے .
صرف معلومات کے لئے :
اھل سنت و اھل حدیث حضرات کی کتب احادیث میں بھی اسناد حسن کے ساتھ صلاۃ تسبیح کا ثبوت موجود ہے ، صرف فرق یہ ہے کہ اھل سنت کے طریق میں نبی اکرم (ع) نے یہ نماز اپنے چچا عباس بن عبدالمطلب کو تعلیم دی تھی . باقی نماز کے طریقے میں کوئی فرق نہیں ہے .
ملاحظہ کریں : سنن ابی دائود : 1297، سنن ابن ماجہ : 1387 و سندہ حسن
No comments:
Post a Comment