Wednesday, February 21, 2018

محمد بن حنفیہ رہ اور اقرار امامت امام سجاد ع


محمد بن حنفیہ رہ اور اقرار امامت امام سجاد ع

محمد بن حنفیہ رہ امام علی ع کے نامور بیٹے تھے اور ان کی والدہ خولہ کا تعلق بنی حنیفہ سے تھا ، اسی لئے عرف عام میں ان کو محمد بن حنفیہ کہا جاتا ہے ۔ انہوں نے انہتر سال کی عمر پائی اور 81 ہجری میں ان کی وفات ہوئی ۔ محمد بن حنفیہ علم و تقویٰ اور شجاعت میں ضرب المثل تھے اور جنگ جمل و صفین میں مولا علی ع کی فوھ کے علم دار تھے ۔

ان کے متعلق مشہور ہے کہ یہ امامت سجاد ع کے معتقد نہیں تھے اور ان سے اس معاملے میں جھگڑا کیا جیسے کہ اصول کافی کی روایت میں ہم ذکر کریں گے ، لیکن اس روایت صحیح سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جب ان پر حجت تمام ہوگئی تو انھوں نے امامت سجاد ع کو قبول کر لیا ، جیسا کہ مندرجہ ذیل روایت سے واضح ہوتا ہے کہ 

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ رِئَابٍ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ وَزُرَارَةَ جَمِيعاً عَنْ ابي جعفر (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ لَمَّا قُتِلَ الْحُسَيْنُ (عَلَيْهِ السَّلام) أَرْسَلَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَنَفِيَّةِ إِلَى عَلِيِّ بن الحسين (عَلَيْهما السَّلام) فَخَلا بِهِ فَقَالَ لَهُ يَا ابْنَ أَخِي قَدْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) دَفَعَ الْوَصِيَّةَ وَالامَامَةَ مِنْ بَعْدِهِ إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) ثُمَّ إِلَى الْحَسَنِ (عَلَيْهِ السَّلام) ثُمَّ إِلَى الْحُسَيْنِ (عَلَيْهِ السَّلام) وَقَدْ قُتِلَ أَبُوكَ رَضِيَ الله عَنْهُ وَصَلَّى عَلَى رُوحِهِ وَلَمْ يُوصِ وَأَنَا عَمُّكَ وَصِنْوُ أَبِيكَ وَوِلادَتِي مِنْ علي (عَلَيْهِ السَّلام) فِي سِنِّي وَقَدِيمِي أَحَقُّ بِهَا مِنْكَ فِي حَدَاثَتِكَ فَلا تُنَازِعْنِي فِي الْوَصِيَّةِ وَالامَامَةِ وَلا تُحَاجَّنِي فَقَالَ لَهُ عَلِيُّ بن الحسين (عَلَيْهما السَّلام) يَا عَمِّ اتَّقِ الله وَلا تَدَّعِ مَا لَيْسَ لَكَ بِحَقٍّ إِنِّي أَعِظُكَ أَنْ تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ إِنَّ أَبِي يَا عَمِّ صَلَوَاتُ الله عَلَيْهِ أَوْصَى إِلَيَّ قَبْلَ أَنْ يَتَوَجَّهَ إِلَى الْعِرَاقِ وَعَهِدَ إِلَيَّ فِي ذَلِكَ قَبْلَ أَنْ يُسْتَشْهَدَ بِسَاعَةٍ وَهَذَا سِلاحُ رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) عِنْدِي فَلا تَتَعَرَّضْ لِهَذَا فَإِنِّي أَخَافُ عَلَيْكَ نَقْصَ الْعُمُرِ وَتَشَتُّتَ الْحَالِ إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ جَعَلَ الْوَصِيَّةَ وَالامَامَةَ فِي عَقِبِ الْحُسَيْنِ (عَلَيْهِ السَّلام) فَإِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَعْلَمَ ذَلِكَ فَانْطَلِقْ بِنَا إِلَى الْحَجَرِ الاسْوَدِ حَتَّى نَتَحَاكَمَ إِلَيْهِ وَنَسْأَلَهُ عَنْ ذَلِكَ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ (عَلَيْهِ السَّلام) وَكَانَ الْكَلامُ بَيْنَهُمَا بِمَكَّةَ فَانْطَلَقَا حَتَّى أَتَيَا الْحَجَرَ الاسْوَدَ فَقَالَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ لِمُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِيَّةِ ابْدَأْ أَنْتَ فَابْتَهِلْ إِلَى الله عَزَّ وَجَلَّ وَسَلْهُ أَنْ يُنْطِقَ لَكَ الْحَجَرَ ثُمَّ سَلْ فَابْتَهَلَ مُحَمَّدٌ فِي الدُّعَاءِ وَسَأَلَ الله ثُمَّ دَعَا الْحَجَرَ فَلَمْ يُجِبْهُ فَقَالَ عَلِيُّ بن الحسين (عَلَيْهما السَّلام) يَا عَمِّ لَوْ كُنْتَ وَصِيّاً وَإِمَاماً لاجَابَكَ قَالَ لَهُ مُحَمَّدٌ فَادْعُ الله أَنْتَ يَا ابْنَ أَخِي وَسَلْهُ فَدَعَا الله عَلِيُّ بن الحسين (عَلَيْهما السَّلام) بِمَا أَرَادَ ثُمَّ قَالَ أَسْأَلُكَ بِالَّذِي جَعَلَ فِيكَ مِيثَاقَ الانْبِيَاءِ وَمِيثَاقَ الاوْصِيَاءِ وَمِيثَاقَ النَّاسِ أَجْمَعِينَ لَمَّا أَخْبَرْتَنَا مَنِ الْوَصِيُّ وَالامَامُ بَعْدَ الْحُسَيْنِ بن علي (عَلَيْهما السَّلام) قَالَ فَتَحَرَّكَ الْحَجَرُ حَتَّى كَادَ أَنْ يَزُولَ عَنْ مَوْضِعِهِ ثُمَّ أَنْطَقَهُ الله عَزَّ وَجَلَّ بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ فَقَالَ اللهمَّ إِنَّ الْوَصِيَّةَ وَالامَامَةَ بَعْدَ الْحُسَيْنِ بن علي (عَلَيْهما السَّلام) إِلَى عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَابْنِ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) قَالَ فَانْصَرَفَ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ وَهُوَ يَتَوَلَّى عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ (عَلَيْهما السَّلام).

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ حَرِيزٍ عَنْ زُرَارَةَ عَنْ ابي جعفر (عَلَيْهِ السَّلام) مِثْلَهُ.

اصول کافی //کلینی // ج 1// کتاب الحجت // باب : بَابُ مَا يُفْصَلُ بِهِ بَيْنَ دَعْوَى الْمُحِقِّ وَالْمُبْطِلِ فِي أَمْرِ الامَامَةِ// حدیث : 5

ترجمہ 

امام محمد باقر ع نے فرمایا : جب امام حسین ع شہید ہوگئے تو محمد بن حنفیہ رہ نے ایک روز خلوت میں امام زین العابدین ع سے کہا ، اے بھائی کے بیٹے ! تم کو معلوم ہے کہ رسول اللہ ع نے اپنے بعد وصیت و امامت امیر المومنین امام علی ع کے سپرد کی ، پھر انھوں نے امام حسن ع کو دی اور امام حسن ع نے امام حسین ع اور تمھارے پدبزرگوار نے اللہ کا درود اور رحمت ہو ان پر کہ وہ شہید ہوئے اور انھوں نے اپنا وصی کسی کو نہیں بنایا اور میں تمھارا چچا ہوں ، تمھارے باپ کا بھائی ہوں اور علی ع کا بیٹا بلحاظ عمر تم سے بڑا ہوں ، پس امر وصیت اور امر امامت میں مجھ سے جھگڑا نہ کرو۔
امام سجاد ع نے فرمایا: اے چچا ! اللہ سے ڈرو اور اس چیز کا دعوی ٰ نہ کرو جس کے تم حق دار نہیں ہو ، میں نصیحت کرتا ہوں کہ تم جاہلوں میں نہ بنو ، بے شک اے چچا ! میرے باپ نے اللہ کی رحمت ہو ان پر ، عراق جانے سے پہلے میرے لئے وصیت فرمائی تھی اور شہادت سے کچھ دیر قبل یہ عہد میے سپر کیا تھا ،یہ رسول اللہ ع کے تبرکات ہیں ، ان میں سے مجھ سے جھگڑا نہ کرو ، مجھے ڈر ہے کہیں تمھاری عمر کم نہ ہو جائے اور حال تباۃ نہ ہو جائے ۔
اللہ نے وصیت اور وراثت کو اولاد امام حسین میں قرار دیا ہے ، اگر تم جانتے ہو تو میرے ساتھ حجر اسود کے پاس چلو تاکہ ہم اس کا فیصلہ کرائیں اور اس بارے میں سوال کریں ۔
امام محمد باقر ع نے فرمایا کہ یہ بات مکہ میں ہوئی ، پس دونوں چلے 
جب حجر اسود جے پاس آئے تو امام زین العابدین ع نے فرمایا : اب آپ اللہ کی طرف رجوع کریں اور درخواست کریں کہ وہ حجراسود کو ناطق کر دے ، پس محمد بن حنفیہ رہ نے ایسا ہی کیا اور حجر سے سوال کیا ۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا ، تب امام سجاد ع نے فرمایا : اے چچا !آگر آپ وصی ہوتے تو یہ ضرور جواب دیتا ، انھوں نے کہا کہ اب تم ایسا کرو پس امام سجاد ع نے اللہ سے دعا کی ، پھر فرمایا :
میں تجھ سے سوال کرتا ہوں ، اس ذات کے واسطہ جس نے قرار دیا ، تجھ میں میثاق انبیاء و اوصیا ء اور تمام لوگوں کے میثاق کو، خبر دے مجھ کو اس امر کی کہ حسین ع کے بعد وصی اور امام کون ہے 
راوی کہتا ہے کہ حجت کو اس زور سے حرکت ہوئی ، گویا وہ اپنی جگہ سے ہٹ جائے گا ، پھر اللہ نے اس کو گویا کیا اور اس نے واضح عربی میں کہا : اللہ گواہ ہے کہ علی بن الحسین ع وصی اور امام ہیں 
یہ سن کر محمد بن حنفیہ ، امام زین العابدین ع کی امامت کے قائل ہوگئے 

علامہ مجلسی رہ نے اس حدیث کی سند کو صحیح کہا ہے 

مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول، ج‏4، ص: 84

آیت اللہ خوئی رہ نے مندرجہ بالا روایت کو معجم رجال الحدیث میں محمد بن حنفیہ رہ کے ترجمہ میں درج کر کے کہا ہے کہ 

أقول: الرواية صحيحة السند ودالة على إيمانه، وقوله بإمامة علي بن الحسين عليه السلام.

یعنی یہ روایت صحیح السند ہے اور محمد بن حنفیہ رہ کہ ایمان اور ان کے امامت امام سجاد ع کے معتقد ہونے پر دلالت کرتی ہے 

معجم رجال الحديث ـ الجزء السابع عشر  ـ ترجمہ : محمد بن حنفیہ 


چنانچہ روایت صحیح سے ثابت ہوا کہ جب محمد بن حنفیہ رہ پر حجت تمام ہوگئی تو انھوں نے امام زین العابدین ع کی امامت کا اقرار کر لیا اور اب ان پر کسی بھی قسم کو طعن نہیں کیا جاسکتا ہے

اور امامیہ کے نزدیک محمد بن حنفیہ کی جلالت ومرتبہ  مشہور ہے 

1 comment:

صحیح حدیث امام علی ع کے فضائل اور بارہ آئمہ ع کے نام صحیح حدیث میں

﷽ یہ دو صحیح الاسناد احادیث ہیں ایک امام علی ع کے فضائل بزبان نبی کریم ﷺ اور ایک بارہ آئمہ ع نام سمیت ایک ہی حدیث میں (جس پر بعض اہل سن...