سَيِّدَا كُهُولِ أَهْلِ الْجَنَّةِ
جنت کے ادھیڑ عمر لوگوں کے سردارSource
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّارُ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ الْعَبْدِيُّ ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لِأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ هَذَانِ سَيِّدَا كُهُولِ أَهْلِ الْجَنَّةِ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ إِلَّا النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ , لَا تُخْبِرْهُمَا يَا عَلِيُّ " . قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ
جامع الترمذي � كِتَاب الدَّعَوَاتِ � أبوابُ الْمَنَاقِبِ � بَاب فِي مَنَاقِبِ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ ...۔ � رقم الحديث: 3626حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ابو بکرؓ اور عمر کیلیے فرمایا، ’’ اولین اور آخرین میں انبیاء اور مرسلین کو چھوڑ کر یہ دونوں جنت کے اڈھیر عمر یا بوڑھوں کے سردار ہیں۔ ائے علی ان دونوں کو یہ نہ بتانا‘‘۔ ابو عیسٰی ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔Source
حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ ، حَدَّثَنِي وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ الْوَاسِطِيُّ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ يَعْنِي الْيَمَامِيَّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ الْيَمَامِيِّ ، عَنِالْحَسَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ حَسَنٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَأَقْبَلَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، فَقَالَ : " يَا عَلِيُّ ، هَذَانِ سَيِّدَا كُهُولِ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَشَبَابِهَا بَعْدَ النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ " . ۔مسند أحمد بن حنبل � مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... � مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ � وَمِنْ مُسْنَدِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ ...۔ �۔ رقم الحديث: 588
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس تھا پس ابوبکرؓ اور عمرؓ تشریف لائے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، ’’ ائے علی یہ دونوں انبیاء اور مرسلین کے بعد جنت کے بوڑھوں اور اُس کے جوانوں کے سردار ہیں۔‘‘۔
نوٹ
یہ حدیث کئی کتب احادیث میں وارد ہوئی ہے اور کُچھ روایات کو محدثین نے سنداً صحیح بھی قرار دیا ہے۔ لیکن درایتاً اس حدیث میں بہت سے اشکال موجود ہیں۔ جن کے جواب میں آج تک نہیں پا سکا۔ جب یہ حدیث میں نے اپنے اھل تشیع حلقہ احباب کے سامنے رکھی تو اُنکی طرف سے کئی ایسے اعتراض سامنے آئے جن کے آگے میں بھی لاجواب ہو گیا۔ اور پھر کئی سوالوں کا جواب مجھے کہیں سے بھی نہ مل پایا۔ میں اُن میں سے کُچھ اشکالات ممبران کے سامنے رکھ رہا ہوں اگر کوئی بھائی سنجیدگی اور متانت سے اُن اشکالت کے شافی جواب دے دے گا تو میں بہت مشکور ہوں گا۔
جنت میں کوئی اڈھیر عمر یا بوڑھا یا بچہ نہیں ہو گا اور اس بات پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے اور یہ بات صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ اور جنت میں جن نوعمر لڑکوں (غلمان) کا ذکر قرآن میں ہے وہ حورالعین کی طرح جنت ہی کی مخلوق ہیں۔
اسکے جواب میں کہا جاتا ہے کہ بے شک جنت میں سب نوجوان حالت میں ہوں گے لیکن یہ حدیث اُن اھل ایمان کے بارے ہے جو 40 سال کی عمر میں یا بعد میں فوت ہوئے۔ لیکن اس جواب میں بھی کافی اشکال ہیں
یعنی حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ صرف اڈھیر عمر اور بوڑھوں کے سردار ہیں وہ اُن کے سردار نہیں جو جوانی یا لڑکپن یا بچپنے میں گزر گئے۔
پھر یہ جواب زبردستی سے خالی نہیں کیونکہ اگر حدیث پر غور کیا جائے تو صاف الفاظ ہیں کہ جنت کے اڈھیر عمر یا بوڑھے ( سیدا کھول اھل الجنہ)۔ جبکہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ جنت میں تو صرف نوجوان ہیں۔ ہاں جہنم میں جو لوگ جائیں گے اگر اُن میں سے کوئی جوان بھی ہوئے تو وہ مارے مایوسی اور افسوس کے بوڑھے ہو جائیں گے۔
پھر ہم کوئی ایک حدیث بھی ایسی نہیں پاتے جس میں کسی صحابیؓ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے دریافت کیا ہو کہ آپ ہی کا تو فرمان ہے کہ جنت میں تو صرف نوجوان ہوں گے تو پھر اس حدیث کا مطلب کیا ہے؟ جو کہ ایک فطری سوال تھا۔ پھر اگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اُس سوال کا جواب دیتے تو یہ سب کیلیے کافی ہوتا۔
پھر ہم سید شباب کی متواتر حدیث پاتے ہیں اور یہ سید کھول کی حدیث بھی پاتے ہیں لیکن تمام ذخیرہ حدیث سید اطفال سے مکمل خالی ہے۔
الحسن والحسین سید شباب اھل الجنہ والی حدیث متواتر ہے جبکہ یہ حدیث متواتر بھی نہیں اور دوسری صحیح احادیث سے ٹکراتی بھی ہے جن میں بالوضاحت بیان ہے کہ جنت میں جو بھی جائے گا وہ نوجوانی کی حالت میں ہی جائے گا۔ اور اُسکی یہ حالت ہمیشہ قائم رہے گی۔ مطلب جنت میں کُھُول (بڑھابہ) کا تصور بھی نہیں اور نہ وہاں بچپنہ ہے۔
پھر جناب سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا کو نساء العالمین اور نساء الجنہ کا سردار کہا گیا ہے اور وہاں ہم کوئی ایسی حدیث نہیں پاتے جس میں بڑھاپے وغیرہ کی بات کی گئی ہو۔ کہ کوئی اور بوڑھی خواتین کی بھی سرداری پر فائز ہو۔
جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت امام حسن اور حضرت امام حُسین علیھما السلام کے جوانان جنت کے سردار ہونے کی خبر دی اُس وقت وہ طفل (بچے) تھے۔ اور جب وہ شھید ہوئے تو وہ 40 سال سے زیادہ عمر کے تھے۔
حضرت حمزہ علیہ السلام سید الشہدا ہیں۔ اب شھدا میں بچے، جوان اور بوڑھے سب شامل ہیں اور آپ سب کے سردار ہیں جبکہ آپ جب شہید ہوئے اُس وقت آپ ادھیڑ عمر تھے۔
الغرض جس طرح بھی سوچیں اس حدیث پر اشکال قائم رہتے ہیں۔ ہاں پڑھنے والے دوستوں میں اگر کوئی اس پہیلی کو سُلجھا سکے تو میں مشکور ہوں گا۔ اسی لیے اس حدیث کو تھریڈ سے علیحدہ درج کیا اگر مجھے شافی جواب دستیاب ہوگیا تو میں اس کو بھی اصل تھریڈ میں بمعہ جواب شامل کردوں گا شکریہ۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
صحیح حدیث امام علی ع کے فضائل اور بارہ آئمہ ع کے نام صحیح حدیث میں
﷽ یہ دو صحیح الاسناد احادیث ہیں ایک امام علی ع کے فضائل بزبان نبی کریم ﷺ اور ایک بارہ آئمہ ع نام سمیت ایک ہی حدیث میں (جس پر بعض اہل سن...
-
السلام و علیکم سب سے پہلے تمام مسلمانوں کو وفات ابو طالب علیہ السلام کے موقع پر تعزیت پیش کرتے ہیں تمام مسلمانوں خصوصا شیعان حیدر کر...
-
https://aweking4pureislam.blogspot.com/2018/02/blog-post_19.html حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ ہم باتیں کرتے تھے کہ اھل مدینہ میں س...
-
غلاۃ ، بحارالانوار سے شہادت ثالثہ در تشہد کے اثبات میں فقہ رضا کا حوالہ تو پیش کرتے ہیں حالانکہ تحقیق سے ثابت ہے کہ فقہ رضا [ع] امام ر...
اسکے جواب میں کہا جاتا ہے کہ بے شک جنت میں سب نوجوان حالت میں ہوں گے لیکن یہ حدیث اُن اھل ایمان کے بارے ہے جو 40 سال کی عمر میں یا بعد میں فوت ہوئے۔ لیکن اس جواب میں بھی کافی اشکال ہیں
ReplyDeleteیعنی حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ صرف اڈھیر عمر اور بوڑھوں کے سردار ہیں وہ اُن کے سردار نہیں جو جوانی یا لڑکپن یا بچپنے میں گزر گئے۔
یہ آپ نےلکھا ہے جناب تو اس طرح آپ کی بات پر اس حدیث پر بھی ضرب لگ جاتی ہے جو حسن و حسین رضی اللہ اجمعین کے بارے ہے کے وہ بس نوجوانوں کے ہہ سردار ہوں گے تو انکانکیا ہوا گا جو نوعمر لڑکپن میں فوت ہو گئے ہوں گے